اشاعتیں

Zardari ke tajaraby se seekhiye

بلاول بھٹو زرداری نے جب سے عملی سیاست میں حصہ لیا ہے ایسا لگتا ہے دودھ شہد سے نہا کر پاک صاف ہو گئے ہیں۔ جسے دیکھو انکی فہم و فراست کے گن گاتا دکھائی دیتا ہے۔ مگر حالیہ بیانات سے جو انکی شخصیت نکھر کر سامنے آئی ہے اس سے انکے بارے میں یہ رائے رکھنے والے کہ وہ نہایت زیرک سمجھدار اور پڑھے لکھے سیاست دان ہیں اپنی رائے پرخود ہی نظر ثانی کرلیں۔ بلاول صرف اپنے والد کا دوسرا چہرہ ہیں ابھی انکے دو بیانات پڑھ کر دماغ روشن ہوا ہے کہ یہ بلاگ لکھے بغیر رہا نہیں جا رہا۔  بلاول بھٹو صاحب فرماتے ہیں الیکشن کیمپین کے دوران کہ ہمیں پرانے سیاستدانوں کوآزمانا نہیں چاہیئے۔ بہت خوب اچھی بات گو ہم 2018 میں اس تجربے سے مستفید ہو چکے ہیں اور اس نئے نویلے سیاستدان نے پاکستان کو جس تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا یہ کہتے ہوئے کہ ہمیں تجربہ نہیں تھا ہنسی آتی ہے اب اس عوام کی حالت پر جو ایسے بیانات سن کر سر بھی دھنتے ہیں۔ اگر پرانے سیاستدان برے ہیں تو بلاول میاں اپنی پارٹی میں جو جوق در جوق پی ٹی آئی کی باقیات سمیٹ رہے ہیں سر فہرست ندیم افضل چن صاحب انکو واپس بھیجیں۔ ایک تو یہ پرانے ہیں اور دوسرے لوٹے بھی ہیں۔ پرانےس

kabhi kisi se apne baray main mat pochain

زندگی میں انسان کو دو کام کبھی نہیں کرنے چاہیئیں۔  ایک تو کسی سے اپنے بارے میں رائے طلب نہیں کرنی چاہیئے دوسرا کسی کی رائے پر یقین بھی نہیں کرنا چاہیئے۔ سخت نقصان ہے اس میں وہ بھی ذہنی۔۔ دراصل ہر انسان کیلئے کامیابی خوشی طاقت عزت کا معیار الگ ہوتا ہے۔ جو آپکے نزدیک کامیابی ہے وہ کسی دوسرے کے نزدیک حماقت بھی ہو سکتی ہے۔ آپ اگر کسی معمولی سی بات پر خوش ہیں تو وہ آپ خوش ہیں کسی دوسرے کیلئے وہ محض ایک معمولی سی بات ہے۔ آپکی زندگی میں آپکے عزائم آپکے کیلئے اہم ہیں۔ کیونکہ آپ وہ کر رہے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں۔ اب معمولی سی مثال لیجئے جب آپ کوئی بے حد خوبصورت سی قمیض اپنے لیئے خریدیں اس بات پر خوش ہوں گے پہن کر مطمئن ہوں گے مگر کوئی آپکو جتادے گا کہ فلاں جگہ یہ سستی مل رہی ہے یا یہ تو تم پر جچ نہیں رہی اس میں موٹے / موٹی لگ رہے ہو وغیرہ اب جب تک یہ جملے آپکو سننے کو نہیں ملے تھے آپ بے حد خوش اور مطمئن تھے مگر یہ جملے سن کر آپ پر اوس پڑ گئ۔جس نے یہ سب کہا اس کے نزدیک یہ اہم نہیں مگر آپکی دلی خوشی کافور ہو گئ۔ تو کیاملا اپنی خوشی کے بارے میں کسی سے رائے طلب کرکے؟ ذہنی کوفت دکھ افسردگی تو جب معمول

Adil Raja and Pakistani Top models controversy explained

جب پچھلے کچھ سالوں میں منظم طریقے سے آپکو مخصوص سیاسی جماعت کے خلاف سب اداکار و اداکارائیں پراپیگنڈا کرتے نظر آئے تب آپ نے ایک مرتبہ تو ضرور سوچا ہوگا کہ واقعی کچھ تو بات ہے جو ہر کوئی سوشل میڈیا پر کسی کو چور ڈاکو کہتا نظر آتا ہے اتنے بڑے بڑے فنکاروں کو جو پڑھے لکھے بھئ نظر آتے ہیں یقینا کچھ تو معلومات ہیں جو وہ ایسا کہہ رہے ہیں۔یا ایسی کیا بات ہے عمران خان میں کہ سب اسکے گن گاتے نظر آتے ہیں۔ یقینا۔اور ایسا سوچنے میں آپ غلط نہیں ہوں گے۔ ماحول ہی کچھ ایسا بنا دیا گیا تھا۔ مگر اب ذرا اس کا الٹ بھی دیکھیئے۔ جب کردار کشی شروع ہوئی ہے تو اسی عمران خان کی سیکس آڈیومنظر عام پر لائی جا رہی ہیں اسکی کرپشن کے قصے کھولے جا رہے ہیں اب کھل کر کہا جا رہا ہے کہ سب اینکروں پر شدید دبائو تھا انکے منہ میں مخصوص پراپیگنڈے پر مشتمل الفاظ ٹھونسے گئے اور اصل کہانی یہ تھی کہ * بڑے چاہتے * تھے کہ عمران خان کو صادق و امین ثابت کیا جائے۔ صحیح کون غلط کون نہیں بحث میں پڑتے۔ سوال بس اتنا جب چوروں ڈاکوئوں کے خلاف اتنا پراپیگنڈا کیا گیا تو انکی ایسی آڈیو و ویڈیو سامنے لانے سے کس قوت نے روکا؟ کوئی قوت روکنے والی نہ

Pinky murghi aur kaptan

پنکی میرا دل بیٹھا جاتا ہے بلائو مرغی۔  کوئئ نیا منتر پڑھو کوئی نئی جلائو مرغی۔ میرے تو سب آجو باجو والے ملک سے باہر ٹر گئے۔ میں بے فیض رہ گیا ہوں مجھے کم از کم کھلائو مرغی۔ تم نے تو کہا تھا میں یک صدی حکمران رہوں گا سب  گوشت جلانے سے اب اثر نہیں ہوتا موئکلوں کو سوپ بنا کر پلائو مرغی۔ فیس سیونگ چھوڑو اب تو فیس سوجا رہنے لگا ہے میرا بوٹ کی آواز آتی ہے کانوں میں میرے سرپر  سے پھروائو مرغی۔  سب پوچھتے ہیں گھڑیوں کا تحفوں کا کیوں کیا سودا میں نے۔  کیا بتائوں میری زوجہ ان پیسوں سے ہی تو خرید پائی مرغی۔ پنجاب میں حمزہ چھوٹی ی بڑی یے کوئی تو رہنے دیا ہوتا۔ اب الزام لگانا میرے لیئے مشکل ہے کیوں کر ہے مہنگی ہو پائی مرغی کہنے کو داستان مرغی المناک ہے میری مگر ایک آخری بات بتائوں زندگی میں کبھی اتنی نا کبھی دیکھی نا کھائی جتنی ہے جلائی مرغی۔۔  

Pakistani society and men's anger

پاکستان جس اخلاقی تنزلی کا شکار ہے اسکی مثال نہیں ملتی۔ آئے دن کہیں بچوں کے ساتھ ذیادتی کے واقعات سامنے آتے ہیں کوئی مدرسے کا معلم ہوتا ہے تو کوئی قریبئ رشتے دار ۔ جن سے مار دینا معصوم جانوں کو تو اب معمول کی بات لگتی ہے۔ ابھی پچھلے دنوں اسلام آباد کے ایک اسکول کی پرنسپل نے ٹوئٹر ہینڈل استعمال کرتے ہوئے ایک بچے کی تصاویر پھیلائیں جس کو اسکی ماں نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا وجہ پڑھائی میں دلچسپی نہ لینا بتائی گئ تھی اور اب ایک شقی باپ کا اپنے بارہ سالہ بچے کو اسی وجوہ کی بنا پر بچے کو تیل چھڑک کر زندہ جلا دینے کا واقعہ سامنے آگیا ہے۔ پڑھائی کو ہوا بنا دیا گیا ہے جیسے پڑھ لکھ کر بچے ایکدم سے بہترین طرز زندگی اختیار کر سکیں گے۔حالانکہ اس ملک میں جو حالات چل رہے ہیں اس وقت بڑھتی عمر کے بچوں کو ہنر سکھانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ معاشی طور پر مستحکم ہو سکیں۔ تعلیم میں بچوں کی دلچسپی کا نہ ہونے کے اسباب اور تعلیم و ہنر کا انتخاب ایک طویل بحث ہے۔ اس وقت میں اس معاملے پر بات کرنا چاہ رہی ہوں جسکی وجہ سے سگا باپ یا سگی ماں ایک وحشی بھیڑیئے کا روپ دھار لیتے ہیں۔آخر کیا وجہ ہے اولاد کے سب سے سچے خیر خوا

Pakistani media and its effect on children

قومیں اپنی مشترکہ تاریخ ، ثقافت ،زبان اور نسل کے لوگوں سے بنتی ہیں جو ایک مخصوس ریاست یا علاقے میں اکٹھے ہو جائیں.جو لوگ اپنے ثقافت اقدار اور زبان پر عبور رکھتے ہیں وہ ہی ایک مضبوط قوم بنتے ہیں کیوں کہ وہ اپنا ورثہ منتقل کرتے ہیں اپنی اگلی نسل میں۔ آپ کا مستقبل بحیثیت قوم کیا ہے اسکا اندازہ آپ اپنی قوم کے بچوں سے لگا سکتے آپ اپنی کونسی اقدار روایات اور زبان کا کتنا حصہ اپنے بچوں میں منتقل کر رہے ہیں. کیوں کہ آپکی اگلی نسل ان بچوں سے ہی بڑھنی ہے.. اور اس میں والدین کا بہت بڑا حصہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو کیا سکھا رہے یا کیا سیکھنے سے روک نہیں رہے ہم نہیں چاہیں گے کہ ہمارے بچے الجھن زدہ ،پریشان اور اپنی جڑوں سے بیگانہ ہوں جب وہ بڑے ہو رہے ہوں .زبان اور ثقافت انھیں یاد دلائے گی کے وہ کون ہیں کہاں سے تعلق رکھتے ہیں اگر ہم بچوں کو صحیح وقت اور عمر میں ہی تربیت کریں انھیں انکی اقدار روایات زبان اور ثقافت سے روشناس کریں تو ہم ایک مضبوط قوم کی بنیاد رکھ سکتے ہیں بصری پروسیسنگ کی مہارتیں وہ ہیں جو ہمارا دماغ اپنے ارد گرد کی دنیا میں جو کچھ ہم دیکھتے ہیں اس کا احساس دلانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ج

Pakistani media and its pros and cons

  مشہور کینیڈین مفکرمارشل مک لوہن  کا قول ہے " میڈیم پیغام ہے “   جس کا مطلب ہے کہ میڈیم کی شکل پیغام میں خود کو سرایت کر لیتی ہے، جس سے ایک علامتی تعلق پیدا ہوتا ہے جس کے ذریعے میڈیم اس بات کو متاثر کرتا ہے کہ پیغام کو کیسے سمجھا جاتا ہے۔   یعنی میڈیا کے بارے میں اہم چیز وہ پیغامات نہیں ہیں جو وہ لے جاتے ہیں بلکہ میڈیم خود انسانی شعور اور معاشرے کو بڑے پیمانے پر متاثر کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ایک ٹی وی کا مالک ہونا جو ہم دیکھتے ہیں اس سے زیادہ اہم ہے کہ ہم اس پر جو کچھ بھی دیکھتے ہیں۔ ٹیلی ویژن جدید ثقافت کا ایک ناگزیر حصہ ہے۔یہ ہمارے گھروں کا اہم حصہ بن چکا ہے۔گھر کے ہر فرد کے لیے کچھ نہ کچھ دلچسپی کا سامان فراہم کرنے والا            ،اسکی  آمد کے بعد سے ہم تفریح، خبروں، تعلیم، ثقافت، موسم، کھیلوں اور یہاں تک کہ موسیقی کے لیے ٹی وی پر انحصار کرتے ہیں۔ ٹی وی دیکھنے کے زیادہ سے زیادہ طریقوں کے ساتھ اب ہمارے پاس اچھے معیار اور نامناسب ٹی وی مواد کی بہتات تک رسائی ہے۔ذرائع ابلاغ کو آج عالمگیریت کو بڑھانے، ثقافت کے تبادلے میں سہولت فراہم کرنے اور بین الاقوامی خبروں کی