Pakistani media and its effect on children
قومیں اپنی مشترکہ تاریخ ، ثقافت ،زبان اور نسل کے لوگوں سے بنتی ہیں جو ایک مخصوس ریاست یا علاقے میں اکٹھے ہو جائیں.جو لوگ اپنے ثقافت اقدار اور زبان پر عبور رکھتے ہیں وہ ہی ایک مضبوط قوم بنتے ہیں کیوں کہ وہ اپنا ورثہ منتقل کرتے ہیں اپنی اگلی نسل میں۔
آپ کا مستقبل بحیثیت قوم کیا ہے اسکا اندازہ آپ اپنی قوم کے بچوں سے لگا سکتے آپ اپنی کونسی اقدار روایات اور زبان کا کتنا حصہ اپنے بچوں میں منتقل کر رہے ہیں. کیوں کہ آپکی اگلی نسل ان بچوں سے ہی بڑھنی ہے.. اور اس میں والدین کا بہت بڑا حصہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو کیا سکھا رہے یا کیا سیکھنے سے روک نہیں رہے
ہم نہیں چاہیں گے کہ ہمارے بچے الجھن زدہ ،پریشان اور اپنی جڑوں سے بیگانہ ہوں جب وہ بڑے ہو رہے ہوں
.زبان اور ثقافت انھیں یاد دلائے گی کے وہ کون ہیں کہاں سے تعلق رکھتے ہیں اگر ہم بچوں کو صحیح وقت اور عمر میں ہی تربیت کریں انھیں انکی اقدار روایات زبان اور ثقافت سے روشناس کریں تو ہم ایک مضبوط قوم کی بنیاد رکھ سکتے ہیں
بصری پروسیسنگ کی مہارتیں وہ ہیں جو ہمارا دماغ اپنے ارد گرد کی دنیا میں جو کچھ ہم دیکھتے ہیں اس کا احساس دلانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ جب کوئی بچہ بصری پروسیسنگ کی مہارتوں کی نشوونما میں پیچھے ہوتا ہے، تو سیکھنے میں زیادہ وقت لگ سکتا ہے، اس کے لیے زیادہ علمی کوشش کی ضرورت ہوتی ہے جو سیکھنے کے عمل کو سست کر دیتی ہے۔
اور اسی کا الٹ ہوتا ہے اگر بچہ سیکھنے میں تیز ہے اور اسے دیکھنے کے لئے بہت کچھ میسر ہے
ٹی وی سے قبل یہ سب ذمےداری خاندانی نظام کی تھی جہاں بچے اپنے بزرگوں کے ساتھ وقت گزارتے تھے. ان سے اخلاقی کہانیاں سنتے تھے صحیح غلط کی پہچان ہوتی تھی . جوں جوں اس نظام کا زوال آتا گیا ہے والدین کی زمےدا ریاں بڑھ گئی ہیں . اپنے روز مرا کاموں میں مصروف والدین کے پاس وقت نہیں کہ وہ بچوں کے ساتھ بیٹھ کر وقت بتا سکیں انکے ساتھ کھل کود میں حصہ لے سکیں سب سے آسان انہیں یہی لگتا ہے کہ انکو ٹی وی میں ویڈیوز میں مصروف کردیا جائے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ ٹی وی پر دیکھیں تو کیا دیکھیں؟
ترقی یافتہ ممالک اپنے بچوں کے لئے ایسا مواد تخلیق کرتے ہیں جس سے وہ انکی ثقافت زبان اور اقدار کے رکھوالے بن سکیں۔
یقینآ انکی بنائی ہوئی ویڈیوز ڈرامے انکے معاشرے کے لئے بہترین ہیں.مادر پدر آزاد معاشرے میں بچوں کو پروان چڑھانے والے والدین کے لئےضروری ہے کہ انکے بچے بچپن سے ہی بہت سی ایسی باتیں اور موضوعات سے واقف ہوجائیں جن کے بارے میں بات کرنا بھی کچھ معاشروں میں معیوب سمجھا جاتا ہے
چونکہ دنیا گلوبل ولیج بنتی جا رہی ہے تو ہر ملک کا ہر طرح کا مواد ہر ملک میں میسر ہے
آپ بچوں پر جتنی بھی قدغن لگا لیں آپکے بچے کچھ نہ کچھ ایسا دیکھ رہے ہیں جو شاید آپ انکو دیکھنے نہیں دینا چاہیں گے
ماہرین کہتے ہیں جو بچے ٹی وی کے سامنے بہت وقت گزارتے ہیں انکو اپنا وقت کا درست استمال کرنا نہیں آتا . انکی توجہ بٹی رہتی ہے اور تخلیقی صلاحیتیں کمزور ہو جاتی ہیں پرتشدد مواد دیکھنے سے بچوں میں اشتعال پیدا ہوتا ہے
اوسطا امریکی بچہ 18 سال کی عمر تک ٹی وی پر 200,000 پرتشدد کارروائیاں دیکھتا ہے بچے خود سےجو سیکھتے ہیں وہ عملی زندگی میں اطلاق کرتے ہیں نتیجہ پرتشسدد کاروائیوں میں ایسے بچے ملوث نظر آئے جو اچھے بچے سمجھے جاتے تھے
درحقیقت، اکثر ہیرو "برے لوگوں" سے لڑ کر یا مار کر جیت جاتا ہے۔ یہ بچوں کو الجھ سکتا ہے کیونکہ وہ صحیح اور غلط کے درمیان فرق کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں
بچوں پر ٹی وی کا مثبت اثر
ایک مطالعہ جو پہلی بار 2015 میں لکھا گیا تھا لیکن 2019 میں امریکن اکنامک جرنل نے شائع کیا تھا، اس بات کا اندازہ لگاتا ہے کہ شو 'سیسمی سٹریٹ' نے کتنا بڑا فرق ڈالا . اس شو میں رسائی حاصل کرنے والے بچوں کی تعلیمی اور پیشہ ورانہ کامیابیوں کا موازنہ ان بچوں کے مقابلے میں کیا گیا جنہوں نے شو تک رسائی حاصل نہیں کی
مطالعہ باہمی تعلق کو ظاہر کرتا ہے، وجہ نہیں- یعنی یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ سیسم سٹریٹ دیکھنا ابتدائی اسکول میں بہتر کارکردگی کا سبب تھا۔ اور اعداد و شمار نے یہ بھی تجویز کیا، لیکن حتمی طور پر ثابت نہیں ہو سکا، کہ بچپن میں شو دیکھنے سے وابستہ فوائد بچوں کے ہائی اسکول سے فارغ التحصیل ہونے کے وقت ختم ہو جاتے ہیں۔ پھر بھی، کیرنی کا کہنا ہے کہ، نتائج بتاتے ہیں کہ سیسم اسٹریٹ کا "بڑا" اثر پڑا۔
پاکستانی بچوں کی بصری لائبریری
زبان اور ثقافت سے دوری
پاکستان میں بچوں کے لئے مواد تخلیق نہیں یا کم کیا جا رہا ہے. پچھلے پانچ سالوں میں بچوں کے کچھ چینل پاکستان میں چلنا شروع ہوۓ ہیں، ان میں زیادہ تر کارٹون جو کے دیگر ممالک میں بنتے آئیے ہیں انکوہندی ڈبنگ کے ساتھ چلایا جاتا ہے. بھارت میں بچوں کے پروگراموں کو ہندی دببنگ کر کے دکھایا جاتا ہے دببنگ میں ثقیل ہندی الفاظ کا استمال کیا جاتا ہے تا کہ نیی آنے والی نسل ہندی پر عبور حاصل کرے. پاکستان میں اسکا بلکل الٹ نظام ہے
بجایے جاپانی ترکی یا بھارتی کارٹونوں اور پروگراموں کو اردو ڈب کیا جائے انکو ہندی کے ساتھ ہی چلا دیا جاتا ہے.
چھوٹا بھیم اسکی بد ترین مثال ہے جو سیدھا سیدھا ایک ہندو روایتی کارٹون ہے ہندو تہذیب کا عکاس ہندی زبان کا پرچار کرتا مزید آجکل کڈز زون نامی چینل اپر شہرزاد کارٹون چلایا جا رہا ہے اسکو اردو میں ڈب کیا گیا ہے مگر نامعلوم وجوہات کی بنا پر اردو جملے میں جا بجا انگریزی الفاظ کا استعمال کیا جارہا ہے
شروعات یہاں سے ہوتی ہے اس سیریز کی
"یہ کہانی ہے قدیم اور خطرناک سفر کی یہ کہانی ہے
monsters
کی
خاص طورپر یہ
kingdom
کا سب سے خطرناک مونسٹر "
اگلے ہی منظر میں ہیروئن شخص سے مدد مانگتے کہتی ہے
مجھے mystic اجوائن essence
چاہیے
مزید براں اس کارٹون کی ہیروئن بیباک لباس میں ملبوس ہے جو یقین ہمارے معاشرے کے مطابق درست نہیں تہذیب مشرق
وسطیٰ کی زبان انگریزی اور ناظر پاکستانی بچے ھیں
مدنی ٹی وی پر مذہبی کارٹون سیریل چلتی ہے جس میں پہلے ہی منظر میں ایک چھوٹی سی بچی سکارف پہنے ٹرامپولین پر کود
رہی ہے اور اسکا ساتھی بچہ آ کے کہتا ہے
"کنیز فاطمہ بس کریں
breaktime
سے پہلے ہمیں کلاس میں جانا ہے آپ اور کتنی
jumping
کریں گی
یہ دیکھ کر بڑا ہونے والا بچہ اردو سے کتنا واقف ہوگا اندازہ لگایا جا سکتا ہے
مذہبی کارٹون
غلام رسول ایک مذہبی کارٹون سیریز ہے جس میں بچے ایک ایک منظر میں کوئی نہ کوئی دعا کوئی اسلامی بات سیکھ رہے ہیں مگر اگر اسکے سکرپٹ پر غور کیا جائے تو انداز صرف اور صرف واعظ دینے والا ہے. جو اگر کچھ بچوں کو اس سیریز سے باندھ سکتا ہے تو کچھ بچے مسلسل واعظ سن کے بیزار بھی ہو جاتے ہیں. اس کی ٹارگٹ ناظرین دس سال سے کم عمر ہیں مستقل ایک مذہبی نقطہ نظر پر مبنی کارٹون مخصوص مذہبی ذہنی سوچ کا پرچار ہی کر رہے ہیں.
اس میں پاکستان میں رہنے بسنے والی دیگر قومیتوں اور مذھب کی کوئی نمائندگی نہیں ہے پاکستان جیسا ملک جو مذہبی ثقافتی لحاظ سے رنگین ہے آپ بچوں کی ایک مخصوص سوچ کے حساب سے ذہن سازی کریں گے تو وہ عدم برداشت کی جانب بڑھیں گے
غیر ملکی مواد جسے ڈزنی اور دیگر ممالک کی انیمٹڈ فلمیں کا بیباک مواد
ڈزنی کی کہانیوں کے بارے میں دنیا بھر میں والدین تحفظات کا اظہار کرتے ہیں. تصویری منظر کشی میں کوئی غیر ضروری بیباک منظر کبھی فلم کا حصہ ہوتا ہے تو کبھی بیباک لطائف جا بجا کانوں کی زینت بنتے ہیں
زو ٹوپیا نامی بچوں کی فلم میں ایک کردار خرگوش بہت فخر سے ایک جنسی لطیفہ سنا دیتا ہے
میں احمق خرگوش سہی مگر ہم اپنی نسل بڑھانے میں تیز ہیں
فروزن ٹو میں شہزادی مشھور ہم جنس پرستوں سے منسوب اصطلاح روانی میں کر جاتی ہے
الله دین فلم میں جن ایک اور بیباک جملہ کہہ ڈالتا ہے
میرا خیال تھا کہ ہنی مون سے قبل زمین نہیں ہلا کرتی
بچے ہمیشہ متجسس رہتے ہیں نیی نیی باتیں جاننے کے لئے اس طرح کے مذاق کو وہ جب نہیں سمجھ پاتے تو وہ یقینن جاننے کی کوشش کرتے ہیں ایسی اور بہت سی مثالیں ہیں جہاں بچوں کے غیر ملکی مواد میں انھیں وقت سے پہلے یا غیر ضروری طور پر معلومات ملیں جو پاکستان جسے دقیانوسی معاشرے کے لئے ہرگز بھی قابل قبول نہیں
مزید ہم جنس پرستی کے حوالے سے معلومات دے جانا اسکو برا یا غلط نہ دکھانا ہمارے بچوں کو الجھا دیتا ہے
بھارتی پراپیگنڈا کچے ذھن
ابھی حال ہی میں پاکستانی مس مارول کا کردار دنیا کے سامنے پیش کیا گیا ایک پاکستانی لڑکی کی کہانی نے پاکستانی عوام کو ناصرف متجسس کیا بلکہ خاص کر اس سیریز کو دیکھا.
اس سیریز کے اگر آپ بانیوں کے نام پڑھیں تو آدھے تو بھارتی اس سیریز کو بنا رہے ہیں ظاہر ہے انہوں نے اس میں اپنے ہی نظریات دکھانے تھے اسکی مثال مشور ہونے والا ثمینہ احمد کا کلپ ہے
جس میں وہ اپنی نواسی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتی ہے
میں اب تک اپنا وجود تلاش رہی ہوں کاغذوں پہ پاکستانی ہوں پیدائش سے ہندوستانی اور ان دونوں ملکوں کی بیچ ایک سرحد ہے ایک ایسی سرحد جو درد اور خون سے کھینچی ہویی ہے
جب انگریز یہ ملک چھوڑ کر بھاگ رہے تھے تب انکی بنائی سوچ کے حساب سے لوگ آج بھی اپنا وجود چن رہے ہیں
یہ مکمل بھارتی سوچ ہے ہزاروں قربانیوں کے بعد پاکستان آ بسنے والے مہاجرین کو اگر بھارت سے اتنا گہرا تعلق محسوس ہوتا تو کبھی پاکستان نہ آتے. یہ پاکستان کے وجود پی سوالیہ نشان اٹھاتا ہے کہ پاکستانی یہ سوچ رکھتے ہیں کہ وہ پاکستانی نہیں بلکہ شاید ہندوستانی ہیں؟ دو قومی نظریہ مسلم لیگ نے دیا تھا انگریزوں نے نہیں وہ تو بنا تقسیم کے جا رہے تھے مگر بینا ا لقوامی میڈیا میں پاکستان کا یہ نظریہ نہیں بلکہ بھارتی نظریہ پاکستانی مواد کے ساتھ پیش کیا گیا جیسے یہ ہماری اساس ہے
ہمارے مستقبل کی ذہن سازی ہم نہیں بلکے غیر ملکی میڈیا کر رہا ہے
اشتہارات اور انکا بچوں پر اثر
بچے سارا دن ٹی وی پر مختلف مصنوعات کے اشتہار دیکھتے ہیں اور غیر ضروری طور پر چیزوں کو لینے میں دلچسپی لینے لگتے ہیں چاہے وہ کھانے پینے کی ہوں یا معمول کے فیشن مصنوعات جن کی انکو قطعی ضرورت نہیں ہوتی مگر وہ انکو لینے کے لئے والدین سے ضد کرتے ہیں
مہنگی گیجٹس ، گیمنگ مصنوعات انہیں ہر قیمت پر چاہیے ہوتی ہیں ۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کھانے کی مارکیٹنگ بچوں کی فوری اور مستقبل کی کھپت میں اضافہ کرتی ہے، کھانے کے برانڈ کی ترجیحات پروڈکٹ کی جگہوں اور اشتہارات سے متاثر ہوتی ہیں، اور بچپن میں موٹاپے کا تعلق تجارتی ٹیلی ویژن دیکھنے سے ہےبچے میٹھی اور غیر صحت بخش خوراک کے دلچسپ اشتہاروں سے متاثر ہو کر بھوک سے بالا تر زبان کے چسکے کے لئے بھی کھانے کے شوقین ہو جاتے ہیں۔اس وقت پاکستانی میڈیا پر سب سے زیادہ آلو کے بنے چپس کے اشتہارات چل رہے ہیں مختلف برانڈز کے ۔ٓاجکل کے بچے چپس کے بنادن گزارنا پسند نہیں کرتے . مائلو ، کے بنا بچے دودھ پینا نہیں چاہتے ، سٹنگ کا اشتہار دیکھ کر چوتھے بچے بھی سٹنگ پیتے نظر آتے ہیں جب کہ ایسے طاقت بخش مشروبات بچوں کے لئے ممنوع قرار دے جاتے ہیں
پر تشدد مواد
ترقی یافتہ ممالک میں تفریحی مواد کو تقسیم کیا جاتا ہے وقت کے حساب سے اور باقاعدہ ان پر عمر کی قدغن بھی لگی جاتی ہے کہ کس طرح کا مواد کتنی عمر کے لوگ دیکھ سکتے ہیں. بعد قسمتی سے پاکستان میں ایسا کوئی خاص نظام نہیں جو غیر اخلاقی یا پر تشدد مواد کو انکی دسترس سے دور رکھ سکے. بچے ہر طرح کا تشدد دیکھ رہے ہیں چاہے وہ پاکستانی ڈراموں میں شوہر کا بیوی پر ہاتھ اٹھانا ہو یا غیر ملکی مواد میں سیریل کلرز کی کہانیاں ہوں ہر طرح کا تشدد انکی نگاہوں کے سامنے ہے بچوں کے لئے یہ عام سی بات بن چکی ہے کہ اختلاف کی صورت میں ہاتھا پائی پر اتر جایا جایے۔
ارطغرل، ایک ترک ڈرامہ جو پاکستانی نیشنل ٹیلی ویژن پر چلایا گیا، جس میں بچوں کی بڑی تعداد کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ انہیں حقیقی زندگی کے تشدد سے بے حس کر دیتا ہے۔
منفی رواج کا فروغ
ٹیلی وزن کے ناظرین نے مقبول ٹیلی ویژن گیم شو جیتو پاکستان کو جوئے بازی کے اڈوں میں کھیلے جانے والے رولیٹی کے کھیل سے مساوی کرنا شروع کر دیا ہے، یہ مساوات دیکھنے والوں کے لیے دل لگی کے ساتھ ساتھ تشویشناک بھی ہے۔
کیسے اس صورت حال سے نمٹا جائے؟
حیرت انگیز طور پر جہاں پوری دنیا کا ہر طرح کا مواد پاکستانی بچوں کی رسائی میں ہے پاکستانی بچے ہر طرح کی تکنیکی کمی کے باوجود پاکستان میں بنائی گئی اینامٹڈ فلموں اور ڈراموں میں دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں. اللہ یار اینڈ لیجنڈ آف مارخور ، ڈونکی کنگ ' برقع آوینجرز اور آجکل محافظ سیریز میں بچوں نے غیر معمولی دلچسپی لی اور اسکا ثبوت اتن تمام سیریز کی کھڑکی طور کامیابی اور دیگر ممالک میں ڈب ہو کر نمائش کے لئے پیش ہونا ہے. ضرورت اس امر کی ہے کہ بچوں کے لئے ایسے پروگرام بنائے جائیں جس میں انکو تفریح اور تعلیم دونوں حاصل کرنے کے یکساں مواقع ملیں. اور اتنی زیادہ تعداد میں بن القوامی سطح کے بنائے جائیں کہ ہمارے بچے غیر ملکی مواد کی جگہ پاکستانی مواد دیکھیں اور باقی دنیا کے لوگ بھی ہمارے ہنر سے متاثر ہو کر ہمارا مواد دیکھیں.
.
aik aur raiyay by Nazia Zaidi sochna tu paryga #aikaurraiayay #Pakistanipolitics #think #syasat #parliment #IamPakistan #democracy #syasibatain #khabrain #tajziyay #pakistan #lahore #karachi #islamabad #india #pakistani #love #instagram #fashion #photography #imrankhan #urdu #follow #urdupoetry #instagood #pakistanistreetstyle #punjab #kashmir #peshawar #poetry #nature #islam #pakistanzindabad #like #dubai #rawalpindi #tiktok #pakistanifashion #bollywood #bhfyp #pakistaniblogger #pakistan #pakistanibloggers #pakistani #lahore #pakistanifashion #karachiblogger #blogger #pakistanistreetstyle #karachi #foodblogger #islamabad #fashionblogger #instagram #pakistanicelebrities #lifestyleblogger #aimankhan #pakistaniwedding #instagood #ootd #karachibloggers #dawn #love #desiblogger #pakistaniweddings #ary #bcw #pakistanentertainment #talkistanofficial #bhfyp سیاسی منظر نامہ
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں