اشاعتیں

جون, 2020 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

تعلیم اور تعلم Taleem aur Talum

تصویر
کالم کا نام : تعلیم اور تعلم مستقل نام: ایک اوررائے کالم نگار: نازیہ زیدی آج کا کالم کچھ لوگوں کیلئے سوچنے کا باعث بنے گا تو کچھ لوگ اسے ایک فالتوبحث سے تعبیر کریں گے مگر اگر کچھ لوگ اس مسلئے کی نوعیت کو سمجھ گئے تو یقینا اس کالم کو لکھنے کا مقصد پورا ہو جائے گا۔ پاکستان میں اس وقت ایک نیا انقلاب جنم لے رہا ہے جو اس معاشرے کو مکمل طور پر بدل دے گا۔ اسی طرح جیسے دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ہوا یہ تبدیلی بہت تیزی سے اپنی جگہ بنا رہی ہے۔ وجہ ہوگی انتہا پسندی۔ مذہبی طبقے کی انتہا پسندی بمقابلہ آزاد خیال طبقے کی انتہا پسندی۔جوں جوں ان دونوں کے درمیان فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں ووں ووں درمیان میں اس عوام میں ڈب کھڑبہ تصور حیات پیدا ہوتا جا رہا ہے۔ یہ عوام جہاں مذہبی طبقے کے ڈرانے پر ڈر رہی ہے وہاں آذاد خیالوں کہ آزادی سے متاثر بھی ہو رہی ہے۔ مسلئہ شروع ہورہا ہے انگریزوں کے کتے نہلانے والے ذہن پیدا کرنے والے اس تعلیمی نظام سے۔ جہاں لوگ اپنے بچوں کو فر فر انگریزی بولتے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں بہ نسبت اس بات پر خوش ہونے کے کہ انکے بچے قرآن کھول کر بیٹھے ہیں یا نہیں۔قرآن کو بچپن میں پڑھ کر اونچے طاق پر ر

جاگتے رہنا بھائیوJagtay rehna bhaiyo

تصویر
کالم کا نام : جاگتے رہنا بھائیو مستقل نام : ایک اور رائے کالم۔نگار : نازیہ زیدی بچپن میں بچے جب کبھی کوئی ضد کرتے یا سونے کی  بجائے رات کو والدہ کی ناک میں دم کرتے تو عموما مائیں  ڈراتی تھیں سو جائو اب چوکیدار آگیا۔چوکیدار باہر سیٹیاں بجاتا اور کبھی کبھی آواز بھی لگاتا جاگتے رہنا بھائیواندر بچے خوف سے آنکھیں میچ لیتے اور سوتے بن جاتے تھے بھلے  دماغ پوری آب و تاب سے روشن چوکیدار کی بھیانک تصوراتی شکلیں بنا رہا ہو مگر پھر آنکھ صبح ہی کھلتی تھی۔ رات کے دو بجے سیٹیاں مارتا گلیوں میں چکراتا شخص خوفناک ہی ہوسکتا ۔مگر بچے جب اس خوفناک شخص کو دن کی روشنی میں رات کوجاگ کر پہرہ دینے کے پیسے مانگتے ہوئے گرم چادر کی بکل میں مسکین سی شکل بنا کر معاوضہ طلب کرتے دیکھتے تو کبھی اتنی شرافت سے رات کو امائوں سے چوکیدار کے آجانے کی اطلاع پر سوتے نہ بنتے۔ مگر بچے تو بچے ہوتے ہیں بچے ہوتے ہی بڑے ہونے کیلئے ہیں۔ بھلا اس منحنی چوکیدار سے کیا ڈرنا جو خود ہانپتا کانپتا سیٹیاں مارتا پھرتا ہے اور انسانوں سے ذیادہ رات کو غیر مرئی مخلوق سے ٹاکرے سے خود خوفزدہ ہوتا ہو اور جنکی حفاظت کا ذمہ اٹھایا ہو انہی سے اپنی خدم

احمقوں کا ریوڑ Bewildered Herd and modern era

تصویر
کالم کا نام : احمقوں کا حیران ریوڑ مستقل نام : ایک اور رائے  کالم نگار: نازیہ زیدی والٹر لپمن ایک امریکی تجزیہ نگار '  صدر صحافتئ تنظیم اور مشہور لبرل ( آزادخیال) جمہوریت کے تصور کے بانیوں میں سے ایک تھا۔ اس نے آج سے اسی پچاسی سال قبل کے امریکی پراپیگنڈے میں حصہ لیا تھاجس کے ذریعے عوامی رائے کو جنگ کے حق میں ہموار کیا گیا تھا۔ ہوا یوں کہ سن انیس سو سولہ میں ووڈ رو ولسن جو کہ Peace without victory نامی پلیٹ فارم کا صدر بنا (یہ پہلی جنگ عظیم کے درمیان کی بات ہے)تو اس وقت امریکی عوام امن پسند تھئ اور اسے یورپین جنگ سے قطعی کوئی سروکار نہیں تھا لیکن ولسن کی انتظامیہ جنگ کیلئے پرعزم تھی اور اس مقصد کیلئے انہیں کچھ کرنا تھا۔ انہوں نے سرکاری پراپیگنڈہ کمیشن تشکیل دیا جس نے چھے مہینے کے اندر عوامی رائے عامہ ہموار کی اور پرامن عوام کو نفسیاتی بنا کر جنگ کے سوداگروں میں بدل ڈالا جو جرمنوں سے سب کچھ چھین لینا چاہتے تھے ان سے جینے کا حق بھی۔اب عوام چاہتے تھے کہ جنگ لڑیں دنیا بچالیں۔ آج سے کئی دہائیوں قبل اگر یہ پراپیگنڈہ کامیاب ہوا تو اس وقت ذرائع ابلاغ محدود تھے۔ پراپیگنڈے کی غرض سے اس وقت کے

corona hay kay nahi?

تصویر
مستقل کالم کا نام: رائے کی دہی کالم نام : ایک مخمصہ  مصنف: نازیہ زیدی میں آج کل مخمصے کا شکار ہوں۔ مخمصہ وہی جسکو آجکل  سب کنفیوژن کہتے۔ مخصمہ بھی ایسا جو مجھے لاحق ہے۔ آپکو لاحق ہے حکومت کو لاحق ہے عوام کو لاحق ہے مگر جانے سب مخمصے میں پڑے رہنا چاہتے کہ کیا۔۔۔کوئی حل نہیں نکل پارہا۔ عموما فلموں ڈراموں میں دکھاتے ہیں کہ مخمصے میں کردار تب پڑتے جب انہیں کسی کےدل کا حال جاننا ہوتا ہے۔ سو ایک پھول لیکر بیٹھ جاتے اسکی پتیاں توڑتے جاتے ایک پر ہاں دوسری پر ناں کہتے جو آخری پتی توڑتے ہوئے جواب ہوتا اسے حتمی سمجھتے اور اگر دل نہ مانے تو اس طریقے کار پر لعنت بھیج کر ہاتھ جھاڑ لیتے۔ مگر میرے پاس پھول نہیں تو میں دلیلیں اکٹھی کرکے یہی کھیل کھیلنے والی ہوں مجھے امید ہے کہ مجھے جواب ملے گا اور اگر نہیں ملے تو بھی کسی کا کیا۔جاتا یہی سوچ کر میں دلیلوں سے مخمصے سے نکلوں گی ایک حق میں دلیل ایک مخالفت میں تو شروع کرتے ہیں۔۔ ہاں تو میرا مخمصہ ہے کہ کرونا ہے یا نہیں ہے۔۔ جس طرح پوری دنیا تھر تھر کانپتی اعداد و شمار بتاتی پھر رہی دھڑا دھڑ اموات ہو رہی ہیں لگتا ہے کہ ہے۔ مگر جس طرح ہم کرونا سے نمٹ رہے ہیں