جاگتے رہنا بھائیوJagtay rehna bhaiyo


کالم کا نام : جاگتے رہنا بھائیو

مستقل نام : ایک اور رائے

کالم۔نگار : نازیہ زیدی



بچپن میں بچے جب کبھی کوئی ضد کرتے یا سونے کی

 بجائے رات کو والدہ کی ناک میں دم کرتے تو عموما مائیں  ڈراتی تھیں سو جائو اب چوکیدار آگیا۔چوکیدار باہر سیٹیاں بجاتا اور کبھی کبھی آواز بھی لگاتا جاگتے رہنا بھائیواندر بچے خوف سے آنکھیں میچ لیتے اور سوتے بن جاتے تھے بھلے  دماغ پوری آب و تاب سے روشن چوکیدار کی بھیانک تصوراتی شکلیں بنا رہا ہو مگر پھر آنکھ صبح ہی کھلتی تھی۔ رات کے دو بجے سیٹیاں مارتا گلیوں میں چکراتا شخص خوفناک ہی ہوسکتا ۔مگر بچے جب اس خوفناک شخص کو دن کی روشنی میں رات کوجاگ کر پہرہ دینے کے پیسے مانگتے ہوئے گرم چادر کی بکل میں مسکین سی شکل بنا کر معاوضہ طلب کرتے دیکھتے تو کبھی اتنی شرافت سے رات کو امائوں سے چوکیدار کے آجانے کی اطلاع پر سوتے نہ بنتے۔ مگر بچے تو بچے ہوتے ہیں بچے ہوتے ہی بڑے ہونے کیلئے ہیں۔ بھلا اس منحنی چوکیدار سے کیا ڈرنا جو خود ہانپتا کانپتا سیٹیاں مارتا پھرتا ہے اور انسانوں سے ذیادہ رات کو غیر مرئی مخلوق سے ٹاکرے سے خود خوفزدہ ہوتا ہو اور جنکی حفاظت کا ذمہ اٹھایا ہو انہی سے اپنی خدمات کا معاوضہ بھی طلب کرتا ہو۔ خیر اتنا بچے کیا جانیں یہ سب ادراک بڑے ہونے پر ہوا کرتے ہیں۔عموما بچے بڑے ہوتے ہی ہیں۔ جو باتیں بچپن میں ڈراتی ہیں وہ بڑا ہونے پر ہنساتی ہیں اور جو بچپن میں ہنساتی تھیں وہ بڑا ہونے پر ڈرا دیتی ہیں۔ ۔ 

بڑے ہونے پر بڑے خوف لاحق ہوتے ویسے تو بڑا ہونا ہی خوفزدہ ہونے کیلئے کافی ہے۔ بڑے بڑے میں نے چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوفزدہ دیکھے۔ بڑے خوفزدہ بھی بڑے انداز سے ہوتے ہیں ۔ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہوتے ہیں ۔دیکھنے والے کو لگتا نہیں کہ خوفزدہ ہیں مگرہوتے ہیں یہ تک منہ سے کہہ جاتے کہ میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ہوں مگر کسی بین الاقوامئ فون کال پر پیترا بھی بدل لیتےمیرا خیال ہے۔۔بڑوں کو خوفزدہ بڑا ہونا بھی کردیتا ہے۔ لوگ عموما بڑا ہوتے ہی مکر جاتے ہیں ہم بڑے تو نہیں۔اس طرح بڑے بڑے میں نے چھوٹے چھوٹے اور چھوٹے چھوٹے بڑے ہوتے دیکھے۔درصل مسلئہ وہیں سے شروع ہوتاجب ہم چھوٹے ہوتے ہیں۔ بڑے ہم پر پابندیاں لگاتے جاتے گلی میں مت کھیلو ، شور مت کرو،پڑھو بیٹھ کر۔ اور ان پابندیوں پر اگر احتجاجی رویہ اختیار کرو تو سننے کو ملتا بدتمیزی نہ کرو آگے سے جواب نہ دو تمیز سے رہوورنہ مار پڑے تھے۔ ایسے میں ہر ڈانٹ کھانے والا بچہ رشک سے بڑوں کو دیکھتا اور خواہش کرتا کہ۔جلدی سے بڑا ہو جائوں تاکہ مجھے کوئی ڈانٹے نا مگر اب یہ تو کوئی بڑا ہی جانتا ہے کہ اسکو ڈانٹنے دبانے اور چپ کرانے والے بڑے نہیں بلکہ چھوٹے لوگ ہوا کریں گے۔احتجاج کرنا بڑے ہو کر بھی شجر ممنوعہ ٹھہرے گا۔اور تو اور کچھ خوف بڑے ہو کر بھی ساتھ رہتے جیسے یہی چوکیدار کا خوف۔ بڑے بھی چوکیدار سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ چھوٹے تو پھر چھوٹے ٹھہرے ۔چھوٹے لوگ عموما وہ لوگ سمجھے جاتے ہیں جن کے ذمے بڑی ذمہ داریاں ہوتی ہیں مگر وہ پوری کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ ایسے چھوٹے لوگ جابجا نظر آتے مصروف نظر آتے کام کرتے نظر آتے بڑے عہدوں پر نظر آتےمگر انکے کیئے کام ہوتے نظر نہیں آتے۔ پاکستان میں بڑے بڑے کام عموما چھوٹے لوگ کر جاتے ہیں۔ 

چھوٹا بڑا ہونا انسان کے اختیار میں ہوتا ہے۔ کچھ لوگ چھوٹے ہوتے مگر بڑے بن جاتےبڑے بڑے عہدوں پر نظر آتے وہاں وہاں نظر آتے جہاں کسی بڑے کو ہی ہونا چاہیئے۔

خیر بات ہو رہی تھی چوکیدار کی۔ چوکیدار سے بچے ہی ڈرتے جچتے ہیں۔ اگر بڑے ہونے کے باوجود بھی آپکو چوکیدار سے ڈر لگتا ہے تو آپکو سوچنا پڑے گا کہ آخر ڈر ہے کس بات کا۔؟ کیا چوکیدار آپکو آپکے گھر میں داخل ہو کر بے دخل کر دے گا اس بات سے آپ۔ڈرتے ہیں؟ ویسے اگر آپ اس بات سے ڈرتے ہیں  تو صحیح ڈرتے ہیں۔لیکن ڈرنے سے بھئ چوکیدار ہو سکتا ہے باز نہ آئے۔ پچھلے دنوں سننے میں آیا  ایک ملک کا صدر بھی ایسے ہی ایک خوف میں مبتلا ہے۔اس خوف میں مبتلا صدر نے ۔ کرونا کو وائرس نہیں سمجھا سنجیدگی سے نمٹنے کی بجائے ایران توران کی ہانکتا رہا تقاریر میں۔جب دنیا لاک ڈائون کی طرف گئ یہ معیشت کے نام پر عوام کی صحت سے کھیلتا رہا لاک ڈائون کی بجائے عوام کو انکی منشا پر چھوڑ دیا نتیجتا عوام میں بری طرح یہ وائرس پھیلتا گیا انتہائی تیزی سے ہلاکتوں کی شرح بڑھتی گئ عوام میں بے چینی غم و غصہ پیدا ہونے لگا تو اس سابق کپتان نے اپنے اس خوف کا اظہار کیا جس کی وجہ سے یہ سب احمقانہ فیصلے ہوئے ۔ اور وہ وجہ تھی اس ملک کے چوکیدار یعنی فوج۔ موصوف کی کابینہ ریٹارڈ اور حاضر سروس فوجی افسران پر مشتمل ہے اور پھر بھی یہ ڈرا رہے ہیں عوام کو اپنے دیرینہ خوف سے کہ ہٹو بچو احتجاج نہ کرو کہیں فوج قابض نہ ہو جائے۔یہ سوچے بنا کہ بڑے ہو کر چوکیدار کا خوف ذیادہ محسوس ہوتا ہے جبکہ بڑے ہونے کے بعد جو چھوٹے ہوتے وہ چوکیدار کو چونکہ دیکھ لیتے تو ڈرتے ورتے نہیں۔ خیر یہ۔کہانی ہے برازیل کی۔ لیکن اس سے سبق لینے میں کوئی۔حرج نہیں۔اگر اتنے بڑے عہدے پر موجود چھوٹا سا شخص اتنے چھوٹے سے خوف پر قابو نہیں پاسکتا تو یقینا چھوٹے لوگوں کو کسی بڑے کو حکومت کا۔موقع دینا چاہیئے۔ کیونکہ ڈرنا تو صرف بڑوں کو چاہیئے چھوٹے تو بہادر ہوتے ہیں۔انکا جب میٹر گھومتا تو ایوان کی بنیادیں ہلانے ہر تل جاتے ہیں تازہ ترین مثال امریکہ کی لے لیں کیسے چھوٹے کالے لوگ بڑے بڑے گوروں کی ناک میں دم کر رہے ہیں۔ لیکن ایک بات امریکہ کی مجھے اچھی لگی وہاں کی فوج خود آئین کی پاسدار ہے ۔غیر آئینی حکم ملنے پر انکے سربراہ نے تو تقریر جھاڑ دی ماننے سے انکار تک کر دیا۔ یعنی لب لباب یہ کہ چوکیدار کبھی کبھی اچھے بھی ہوتے ہیں۔ اور ان سے ڈر نہیں لگتا بلکہ انکی موجودگی پر تحفظ کا احساس بھی ہوتا امریکہ میں۔۔ہی سہی۔۔۔۔۔

aik aur raiyay by Nazia Zaidi


 sochna tu paryga



 #aikaurraiayay #Pakistanipolitics #think #syasat #parliment #IamPakistan #democracy #syasibatain #khabrain #tajziyay #pakistan #lahore #karachi #islamabad #india #pakistani #love #instagram #fashion #photography #imrankhan #urdu #follow #urdupoetry #instagood #pakistanistreetstyle #punjab #kashmir #peshawar #poetry #nature #islam #pakistanzindabad #like #dubai #rawalpindi #tiktok #pakistanifashion #bollywood #bhfyp
#pakistaniblogger #pakistan #pakistanibloggers #pakistani #lahore #pakistanifashion #karachiblogger #blogger #pakistanistreetstyle #karachi #foodblogger #islamabad #fashionblogger #instagram #pakistanicelebrities #lifestyleblogger #aimankhan #pakistaniwedding #instagood #ootd #karachibloggers #dawn #love #desiblogger #pakistaniweddings #ary #bcw #pakistanentertainment #talkistanofficial #bhfyp




تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

Quaid e azam ke 14 nakat pehla nukta

احمقوں کا ریوڑ Bewildered Herd and modern era

ففتھ جنریشن وار اور ہم