تعلیم اور تعلم Taleem aur Talum
کالم کا نام : تعلیم اور تعلم
مستقل نام: ایک اوررائے
کالم نگار: نازیہ زیدی
آج کا کالم کچھ لوگوں کیلئے سوچنے کا باعث بنے گا تو کچھ لوگ اسے ایک فالتوبحث سے تعبیر کریں گے مگر اگر کچھ لوگ اس مسلئے کی نوعیت کو سمجھ گئے تو یقینا اس کالم کو لکھنے کا مقصد پورا ہو جائے گا۔ پاکستان میں اس وقت ایک نیا انقلاب جنم لے رہا ہے جو اس معاشرے کو مکمل طور پر بدل دے گا۔ اسی طرح جیسے دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ہوا یہ تبدیلی بہت تیزی سے اپنی جگہ بنا رہی ہے۔ وجہ ہوگی انتہا پسندی۔ مذہبی طبقے کی انتہا پسندی بمقابلہ آزاد خیال طبقے کی انتہا پسندی۔جوں جوں ان دونوں کے درمیان فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں ووں ووں درمیان میں اس عوام میں ڈب کھڑبہ تصور حیات پیدا ہوتا جا رہا ہے۔ یہ عوام جہاں مذہبی طبقے کے ڈرانے پر ڈر رہی ہے وہاں آذاد خیالوں کہ آزادی سے متاثر بھی ہو رہی ہے۔ مسلئہ شروع ہورہا ہے انگریزوں کے کتے نہلانے والے ذہن پیدا کرنے والے اس تعلیمی نظام سے۔ جہاں لوگ اپنے بچوں کو فر فر انگریزی بولتے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں بہ نسبت اس بات پر خوش ہونے کے کہ انکے بچے قرآن کھول کر بیٹھے ہیں یا نہیں۔قرآن کو بچپن میں پڑھ کر اونچے طاق پر رکھوا دینے والے انگریزی بولنے والے بچے بمقابلہ سوائے قرآن کو رٹنے کے اور کسی قسم کی عملی تعلیم حاصل نہ کرنے والے بچے۔ مزے کی بات عملی زندگی میں کامیابی کی دونوں کو ہی کوئی ضمانت نہیں دی گئ ہے۔ اس فاصلے کو کم کرنے کیلئے اور ایسا نظام لانے جس سے دونوں طرح کے طلباء استفادہ کریں اسکے لیئےحکومت کوئی عملی قدم اٹھائے گی ایسا تو دور دور تک ہوتا نظر نہیں آتا ۔ہاں اس بار
ہوا کچھ یوں کہ بجٹ میں تعلیم کیلئے کم سے کم فنڈ رکھے گئے۔ایچ ای سی کیلئے تو مزید کٹوتی ہوگئ یعنی جو طلباء اعلی تعلیم حاصل کرنا چاہتے وہ بس چاہ کر ہی رہ جائیں گے۔ خیر اسکے باوجود گورنر پنجاب و یونیورسٹیز کے چانسلر چوہدری محمدسرور نے تمام یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز کی مشاورت کے ساتھ قر آن پاک ترجمہ کے ساتھ یونیورسٹیز میں پڑھانے کا اعلان کیا۔ پنجاب کی تمام جامعات میں لیکچررز طلبہ کو ترجمہ کیساتھ قرآن پڑ ھائیں گے اور طلبہ کے لیے ان لیکچروں میں شرکت کرنا اتنا ہی لازمی ہوگا جتنا دیگر لیکچروں میں ہوتا ہے۔ یونیورسٹیز میں قرآن مجید کا نصاب اسلامیات کے مضمون کے علاوہ پڑھایا جائے گا۔گورنر نے مزید کہا ہے کہ قرآن مجید ہمارے لیے اصل رہنمائی کا ذریعہ ہے قرآن پاک کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ہی دنیا اور آخرت سنواری جا سکتی ہے۔
کیا خبر ہے کوئی کافر ہی اس جذبے کو نہ سراہے گا بلکہ یوں کہنا چاہیئے جو اس بات کی مخالفت میں بولے گا سیدھا کفر کا فتوی پائے گا۔ بھئی قرآن کی تعلیم کیوں نہ لازمی ہو مسلمان ملک ہے ۔بچوں کو قرآن نہیں پڑھائیں گے تو کیا پڑھائیں گے۔ مگر گورنر صاحب میٹرک انٹر سب نکال کر سیدھا جامعات کی سطح پر ہی کیوں قرآن کی تعلیم لازمی قرار دی؟ کیا بچے ترجمے سے قرآن پڑھنے لائق نہیں ؟
پہلی سے گریجوایشن کی سطح تک اسلامیات لازمی میں ہم شائد قرآنی آیات ہی پڑھتے ہیں ترجمے سے تشریح سے۔ احادیث تک نصاب کا حصہ ہیں۔ کیا یہ پہلی دفعہ ہے کہ جامعات کو پابند کیا گیا ہو ؟ نہیں ہرگز نہیں۔ ہم دینی تعلیم سے بالکل بھی بے بہرہ نہیں ہیں۔ مگر مسلئہ قرآن کو پڑھنے سمجھنے کا نہیں ہے یہ بات ہماری عقل میں کب روشن ہوگی؟ ایسا کبھی سوچا ہے کہ پہلی جماعت سے جھوٹ بولنا گناہ ہے پڑھنے والا بچہ اسکول میں معمولی سے ٹیسٹوں میں کامیاب یا ناکام ہونے کی صورت میں بڑی بڑی کہانیاں ڈال لیتا ہے؟ کبھی چھٹی کی وجہ کسی رشتے دار کی فوتگی قرار پاتی ہے تو کبھی پڑھ نہ سکنے کا باعث والدین کی بیماری۔ بچہ / بچی بچپن سے دھڑلے سے جھوٹ بولتے ہیں۔ بستہ گرانے پر تڑپ کر کہنے والا بچہ کہ احتیاط سے اس میں اسلامیات کی کتاب ہے اسلامیات کے پیریڈ میں بھی پڑنے والی ڈانٹ یا مار سے بچنے کو کتاب ہاتھ میں لیئے بھی جھوٹ گڑھ جاتا ہے۔ آٹھویں نویں دسویں کے نصاب میں غسل پاکیزگی شرعی مسائل کو ڈھکے چھپے انداز میں ہی سہی پڑھنے والے بچے بڑے ہو کر بھی نجس پاک صفائی کے صحیح اصولوں سے نا بلد نظر آتے ہیں۔۔ بے راہ روی کا شکار ہیں ، محرم نامحرم جیسے معاملات سے نابلد ہیں ۔ محفوظ صحبت جیسی اصطلاحات سے بے بہرہ ہیں کیوں؟؟؟ بے شک قرآن کتاب ہدایت ہے مگراسکو پڑھانے والے با ہدایت ہونگے یا پڑھنے والے ہدایت لیکر ہی اٹھیں گے یہ کوئی کلیہ نہیں۔ تو میں کہنا کیا چاہ رہی ہوں جی بتاتی ہوں۔ بچپن کی بات ہے ساتویں جماعت میں ہونگی انگریزی میڈیم اسکول کی طالبہ ایک اسلامیات ہی اردو میں پڑھنی نصیب ہوتی تھی جس کو بھی سمجھانے کیلئے ہماری ایک نئی استانئ صاحبہ آئیں۔ سیدھا سادا مضمون تھا کفر کیا ہوتا ۔ جسکو پڑھاتے پڑھاتے انہوں نے سیدھا سیدھا فتوی دے ڈالا کہ فلاں فرقہ بھئ کفر پر ہے اور ساتھ کوئی وجہ بھی بتادی۔ اس فرقے سے پوری چالیس بچوں کی جماعت میں تین سے چار ہی بچے زیر تعلیم تھے۔ ایک نے رونا شروع کردیا ، ایک نے منہ بنایا ۔ ایک نے ہمت کی اور انکو انکے خیالات کی بنا پر غلط ثابت کیا۔ یہ ہمت کرنے والی بچی جب گھر آکر اپنے والدین سے استانئ کے رویئے کی شکایت کرتی ہے تو والدہ اس بات کی شکایت اسکول تک پہنچانے کا ارادہ کرتی ہیں مگر اس بچی کی والدہ سے قبل اگلے ہی دن دیگر اکثریتی فرقےسے تعلق رکھنے والے بچوں کےوالدین اسکول پہنچ گئے اور ٹھیک ٹھاک احتجاج کیا کہ ہمارے بچوں کو فرقہ واریت کی طرف راغب نہ کیا جائے۔ اس قصے کے بعد اس استانئ کی نوکری گئ۔ والدین کو یقین دہانی کرائی گئ کہ نصاب سے ہٹ کر بچوں کو اپنے عقائد کے مطابق اساتذہ کو ایک لفظ پڑھانے کی اجازت نہیں ہوگی۔۔ یہ ایک انگریزی میڈیم اسکول کا قصہ ہے۔بچوں کی بات تھی استانی سے اختلاف کرنے کی صورت میں ذیادہ سے ذیادہ بس احتجاج ہی کر سکے۔ اسکے بعد بات آئی گئ ہوگئ۔پھر باری آئی میٹرک انٹر کی میٹرک انٹر میں جب لمبی لمبی قرآن کی سورتیں شامل کی۔گئیں جنکے اوپر والدین بھی متوحش ہوئے کہ یہ بچوں پر وزن ہے۔ کیوں نہ ہو۔میٹرک انٹر میں سوال بھی یوں ہی آتے کہ آیات لکھی ہوں گی آیات کا ترجمہ اور تشریح لکھیئے۔ اب یہاں جس کی یادداشت اچھی اس نے رٹ لیا استادوں کے حسب منشاء جملے لکھ ڈالے۔ جو رٹ نہ سکا وہ آیات کا ترجمہ لکھتے کانپ کانپ گیا کہ غلط ایک لفظ بھی ہوا تو دنیا بھی گئی دین بھی گیا۔ ان دو بالکل الگ مثالوں کا آپس میں ربط کیا نکلا؟ ہمارا مسلئہ دینی تعلیم کا ہونا نہ ہونا نہیں بلکہ پورا تعلیمی نظام ہے جو بچوں کو سیکھنے کی بجائے صرف پڑھادیتا ہے جو سمجھنے کی بجائے رٹنے پر مائل کرتا ہے۔ جو بچوں کو صحیح غلط بتاتا ہے مگر اس صحیح غلط کو انکی کردار سازی کا حصہ بنانے پر زور نہیں دیتا۔ میٹرک انٹر کےامتحانوں میں جہاں بچوں پر اپنے گریڈ بہتر کرنے کیلئے سوائے ان مضامین کو رٹنے کے کوئی چارہ نہ تھا وہاں گریجوایشن کی سطح پر اسلامیات کے مارکس کا حجم 60 نمبر تک رہ گیا۔ بقیہ چالیس میں مطالعہ پاکستان پڑھ لیں ۔ ان دونوں مضامین کو جب سمجھنے اور جاننے کی عمر آئی بچوں کیلئے نصاب اتنا ہی کم کر دیا گیا ۔پاکستان جیسا ملک جس میں اساتذہ دنیا کا کوئی مضمون بھی پڑھاتے ہوئے بیچ میں اپنے عقیدے کا پرچار کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔پھر بچے اختلاف کریں تو ان سے بیر بھی باندھ لیا جاتا ہے کہ انکا مستقبل سیدھا اساتذہ کے دیئے گئے نمبروں پر ٹکا ہوا ہے۔ پھر یہاں ترجمے پر اختلاف ، تفسیر پر اختلاف پر بات پھر کبھی سہی لیکن کیا میں یہ کہنے میں حق بجانب نہیں کہ ہم ایسے ملک میں رہتے اور پڑھتے ہیں جہاں بچوں کو قرآن پڑھانے سمجھانے سیکھانے کی نیت سے نہیں بلکہ انکو ایک اور مضمون میں نمبروں کی دوڑ لگانے کیلئے ہنکانے کیلیئے نصاب میں شامل کیا جارہا ہے۔ سب سے بڑھ کر تعلیم کا بجٹ کم سے کم کرتے ہوئے ایسا اعلان سوائے عوام کی توجہ بجٹ کی۔خامیوں سے ہٹانے کے سوااور کچھ نہیں۔ بچوں کیلئے کچھ کرنا ہے تو گریڈنگ کا نظام۔بدلیں امتحانی طریقہ کار بدلیں بچوں کو آیتیں رٹوانے کی۔بجائے ان آیتوں سے جو پیغام دیا گیا ہے اس پیغام کو زندگی بہتر بنانے کیلئے استعمال کا درس دیں۔ تاکہ اجنبی زبان میں قرآن صرف پڑھنے والے اسکو سمجھیں امتحانوں میں کامیابی کیلئے نہیں بلکہ زندگی میں کامیاب ہونے کیلئے۔ تعلیم میں تعلم کا عنصر شامل کیجئے آپکے یونیورسٹی کالج سے فارغ التحصیل طلبا ء عملی میدان کیلئے قطعی نا اہل قرار پاتے ہیں۔
اور سب سے بڑھ کر صرف قرآن ہی نہیں باقی۔مضامین بھی اردو میں پڑھانے کا بھی آپشن دیں تاکہ۔اجنبی ترین زبان انگریزی میں پڑھنے رٹنے والے کچھ سیکھ سمجھ کر عملی زندگی میں آئیں ۔صرف جامعات نہیں اسکولوں کالجوں کی سطح پر بھی۔ یہ جو کلیہ بنایا ہوا ہے کہ اردو میں لکھا ہوگا تو نمبر کم آئیں گے خدارا اس گھٹیا سوچ کو۔امتحانی نظام سے الگ کریں بچوں کو انگریزوں کے کتے نہلانے والوں کی غلامانہ ذہنیت والے لوگوں کی فوج کیلئے ترتیب دییئے گیئےانگریزوں کے تعلیمی نظام سے چھٹکارا دلائیں اور قرآن پھر صرف جامعات نہیں اسکولوں میں بھی پڑھائیں مگر تعلیم کیلئے بجٹ بڑھا کر ایسے مشورے دینا زیب دے گا آپکو۔ ہاں اگرمعاملہ صرف توجہ بٹانے تک محدود ہے تو مبارک ہو آپ کسی حد تک کامیاب رہے عوام کو اس وقت قرآن نصابی تعلیم کا حصہ بنانے پر سراہنے سے فی الحال فرصت نہیں جو یہ سوچیں کے وقت کے ساتھ گھٹتے چلے جانے والے تعلیمی بجٹ میں پہلے سے رائج نظام کے تحت تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھنا مشکل ہوگیاہے کجا کسی نئے مضمون کو شامل کرنا۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں