corona hay kay nahi?

مستقل کالم کا نام: رائے کی دہی

کالم نام : ایک مخمصہ 

مصنف: نازیہ زیدی





میں آج کل مخمصے کا شکار ہوں۔ مخمصہ وہی جسکو آجکل

 سب کنفیوژن کہتے۔ مخصمہ بھی ایسا جو مجھے لاحق ہے۔ آپکو لاحق ہے حکومت کو لاحق ہے عوام کو لاحق ہے مگر جانے سب مخمصے میں پڑے رہنا چاہتے کہ کیا۔۔۔کوئی حل نہیں نکل پارہا۔ عموما فلموں ڈراموں میں دکھاتے ہیں کہ مخمصے میں کردار تب پڑتے جب انہیں کسی کےدل کا حال جاننا ہوتا ہے۔ سو ایک پھول لیکر بیٹھ جاتے اسکی پتیاں توڑتے جاتے ایک پر ہاں دوسری پر ناں کہتے جو آخری پتی توڑتے ہوئے جواب ہوتا اسے حتمی سمجھتے اور اگر دل نہ مانے تو اس طریقے کار پر لعنت بھیج کر ہاتھ جھاڑ لیتے۔ مگر میرے پاس پھول نہیں تو میں دلیلیں اکٹھی کرکے یہی کھیل کھیلنے والی ہوں مجھے امید ہے کہ مجھے جواب ملے گا اور اگر نہیں ملے تو بھی کسی کا کیا۔جاتا یہی سوچ کر میں دلیلوں سے مخمصے سے نکلوں گی ایک حق میں دلیل ایک مخالفت میں تو شروع کرتے ہیں۔۔ ہاں تو میرا مخمصہ ہے کہ کرونا ہے یا نہیں ہے۔۔

جس طرح پوری دنیا تھر تھر کانپتی اعداد و شمار بتاتی پھر رہی دھڑا دھڑ اموات ہو رہی ہیں لگتا ہے کہ ہے۔ مگر جس طرح ہم کرونا سے نمٹ رہے ہیں بنا کسی ٹھوس پالیسی کے لگتا ہےکہ نہیں ہے۔عوام کو جس طرح لاک ڈائون میں نرمی کرکے انکو انکی منشا پر گھومنے پھرنے شاپنگیں کرنے کاروبار چلانے کی اجازت دی گئ ہے لگتا ہے کرونا ہےتو مگر اتنا خطرناک نہیں۔ 

لیکن جس طرح ابھی بھی کچھ علاقے سیل کچھ مقدس ادارے اور ان سے ملحقہ علاقے سیل ہیں انکو آمدورفت کی اجازت نہیں انکے گھر مکمل بند ہیں

۔تو لگتا ہے خطرناک ہے۔ہمارے وزیر اعظم جناب عمران خان عوام کے بھوکے مرنے سے خوفزدہ ہیں اور بار بار لاک ڈائون اور خاص سمارٹ لاک ڈائون جیسی اصطلاحات استعمال کرکے عوام کو انکے حال پر چھوڑ دینے کاکہتے نظر آتے ہیں لگتا ہے وزیر اعظم کی سوچ کے مطاق کرونا اتنا خطرناک نہیں جتنی بھوک خطرناک ہے دوسری طرف صوبائی حکومتیں جو اعداد و شمار پیش کر رہی ہیں جن کے مطابق کرونا غیر معمولی تیزی سے پھیل رہا ہے اور ہلاکتوں کی شرح دن بدن بڑھتی جارہی ہے لگتا ہے یہ وزیراعظم کی سوچ سے ذیادہ خطرناک ہے۔ محکمہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق قریب ستر ہزار کیسز کرونا کے پاکستان میں باضابطہ طور پر پائے جاتے ہیں کم ٹیسٹ کی سہولتوں کے ساتھ اورعالمی ادارہ صحت نے پاکستان کو خبردار کر دیا ہےجولائی تک کرونا کے کیسز کی تعداد 2 لاکھ تک پہنچنے کے امکانات ہیں تو لگتا ہے کرونا پھیل رہا ہے مگر جب ہم امریکہ کو امدادی سامان دیتے ہیں وہ بھی ملک کے ایک ادارے کی جانب سے تو لگتا ہے ہمارے پاس ٹیسٹنگ کٹس ضرورت سے ذیادہ ہیں اور کیسز کی تعداد کم ہو جائے گی خود بخود۔ ایک افواہ سننے میں آئی ہے کہ کرونا اتنا ہے نہیں جتنا بتایا جا رہا جو اسپتال سے ٹیسٹ کرواتا اسے ذبردستی کرونا کا مریض ثابت کردیتے ہیں امداد کھانے کے چکر میں تو لگتا ہے کرونا اتنا ہے نہیں جتنا شور مچایا جارہا ہے لیکن جب اکٹھے آدھے درجن ڈاکٹر جن میں کئی نوجوان ڈاکٹرزشامل تھے ان کے جاں بحق ہونے کی خبر آئی تو لگتا ہے کرونا بے نتھے بیل کی طرح ہماری زندگیوں میں گھسا چلا آرہا ہے۔ پھر جب بے مقصد پارلمنٹ کے اجلاس ہوتے ہیں کرونا کے نام پر اور حکومت کرونا پر پالیسی بنانے کیلئے نہ اپوزیشن کو اعتماد میں لیتی ہے نہ ہی کوئی سنجیدہ لائحہ عمل طے کرتی نظر آتی ہے الٹا نیب دوبارہ اپوزیشن کے خلاف متحرک ہو جاتی ہے تو لگتا ہے کرونا کے نام پر سیاست ہو رہی ہے لیکن  جب ایس او پیزبنائے جاتے ہیں اور ان پر سنجیدگی سے عمل درآمد کروانے کا اعلان کیا جاتا ہے تو لگتا ہے حکومت اتنی بھی نا اہل نہیں ہے۔ این ڈی ایم اے کے چئیر مین کی سپریم کورٹ میں طلبی ہوتی ہے اور وہ جواب داخل کراتے ہیں کہ 25 لاکھ فی مریض خرچہ ہوا ہے تو دل کو اطمینان ملتا ہے کہ مریضوں کا علاج کروانے میں حکومت سنجیدہ ہے لیکن جب مریض قرنطینہ میں سہولتوں کے فقدان کا ذکر کریں  توکبھی اکلوتی خاتون کو درجنوں مردوں کے ساتھ قرنطینہ میں رہنے پر مجبور کرنے پر وہ احتجاج کرتی نظر آتی ہے تو لگنے لگتا ہے کہیں کوئی گڑ بڑ گھوٹالا ہے۔قانون نافذ کرنے والے تفریحی مقامات عوام کیلئے بند کرکے ان کو زبردستی گھروں میں محصور کر دینے کا حکم نافذ العمل کراتے ہیں اور حکومتی احکامات کے ذریعےمخصوص اوقات متعین کیئے جاتے ہیں تو لگتا ہے کرونا کی ان مخصوص اوقات کے سوا جرات نہیں کسی انسان پر حملہ کرنے کی وہیں خود وزیر اعظم بہادری کا مظاہرہ کرتے نتھیا گلی میں عید مناتے ہیں تو لگتا ہے کرونا سے ڈرنا نہیں سینہ سپر ہو کر لڑنا ہے۔ جب دھڑا دھڑ مارننگ شوز ہوئے چلے جاتے ہیں ڈرامے آتے سیاسی مباحثے ماحول گرماتے تو لگتا ہے ٹی وی اسٹیشن بھی کرونا سے پاک رہتا ہے وہیں بڑے بڑے فنکار اسکا شکار ہو جاتے ہیں پورے ڈرامے کی کاسٹ بیمار پڑتی ہے تو دل دھک دھک کر اٹھتا ہے۔ جب این ڈی ایم اے کے چیئرمین بارعب انداز میں وردی پہنے فرماتے ہیں کہ صورت حال پیچیدہ نہیں مت گھبرائیں تودل کرتا خود بھی کسی بھی طرح کی وردی پہن کر ٹھاٹھ سے گھومیں اور کرونا کو منہ چڑا کربھاگ جائیں تو ڈاکٹر ظفر مرزا ڈرا دیتے ہیں کہ معاملہ سنگین صورت حال اختیار کر گیا ہے

آخر ہم مخمصے میں پڑے عوام کس کی سنیں۔۔ یکم جون کو  ان سب اعداد و شمار کو مد نظر رکھ کر فیصلہ لیا گیا ہے کہ بہتر ہزار سے ذیادہ متاثرہ افراد ہونے کے باوجود لاک ڈائون صرف ہفتہ اور اتوار کو ہوا کرے گا تو لگتا ہے باقی دن  نظر بندی کے گزار کر کم از کم ویک اینڈ پر کرونا کو فل عیاشی مارنے کا اجازت نامہ ہے تو بس ویک اینڈ پر گھر بند رہے عوام اور اللہ اللہ خیر صلا۔ یہ اعلان ہمت بڑھاتا ہے۔ ایسے میں پھر یونیورسٹی کالج بھی کھول دیں جب باقی دن کرونا چھٹی پر ہو تو بچے کم ازکم پڑھ لیں والدین تو گھر بیٹھے بچوں کی بھی فیسیں بھر ہی رہے ہیں  مگر عوام کے بچوں کے مستقبل کی فکر پرائیوٹ اسکول ایسوسی ایشن کو ہی ہے جو فیسیں وصولنے کے باوجود 15 جون سے اسکول کھولنے کا اعلان کر رہے ہیں یا ایچ ای سی کو جسے لگتا کہ یونیورسٹیوں کے طلبا ء ہٹے کٹے اور شائد غیر معمولی قوت رکھنے والے ہوتے جو اتنی ذہنی پریشانی میں بھی دماغ کے آخری حصے تک تو استعمال میں لا کر امتحان دینے کے قابل ہیں۔اور کرونا سے لڑنے کیلئے ارتغرل جیسی بہادری بھی دکھا سکتے تو  چاہے آن لاین تعلیم جیسا ڈنڈا بھی طلبا ء کے سر پر مار دو مگرپڑھائو اور فیسیں وصولو اور ہو سکے تو چندہ بھی ۔ کیونکہ وزیر اعظم جناب عمران خان صاحب کو صرف غریب عوام کےلاک ڈائون سے  بھوکے مرنے کی فکر ہے انکے لمبے چوڑے بجلی گیس انٹرنیٹ کے بل بچوں کی فیسیں  ادا کرکے مکان کے کرایوں میں جمع پونجی جھونکنےکے بعد بھوکے مرنے کی نہیں  خیر نقصان میں تو میں رہی ان دلیلوں کے درجہ بہ درجہ تقسیم کے باوجود مخمصہ ختم نہیں ہوا بلکہ تشویش اور بڑھ گئ ہے۔ ایک حق میں ایک مخالفت میں دلیل لیکر جب میں نے حکومتی ترجیحات کا موازنہ کیا تو میری رائے کی دہی میں میں  اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ عوام کو کرونا کا شعور دینے کیلئے عوام کو کرونا میں مبتلا کرنا ہی بہترین حل ہے۔پوری دنیا میں کہیں ہماری طرح کے اسمارٹ لاک ڈائون نہیں ہو رہے تو یقینا ہم طاقتور قوم ہیں۔  لہذا ٹرینوں کی آمدورفت جاری کردینی چاہیئے ، اسکول کالج کھول دینے چاہیئیں ، جو جوحساس  علاقے سیل انکو کھول دینا چاہیئے سب کو گرم جوشی سے ایک دوسرے کو رضاکارانہ طور پر بیمار کرنے کی ترغیب دینی چاہیئے بچوں کو کرونا سے ڈر کر گھر بٹھانے کی بجائے منہ درمنہ مقابلے کی فضا فراہم کرتے ہوئے اسکولوں کالجوں یونیورسٹیوں میں بھیجنا چاہیئے کیونکہ ان پر لاکھوں لگانے والے والدین کو انکی صحت و سلامتی کی فکر تھوڑی ہوگی وہ تو بس مستقبل کے معماروں کو بی آرٹی پشاور جیسے نوادر بناتے دیکھانا چاہتے ہیں۔اور چونکہ بجٹ کا مہینہ ہے توچلتے چلتے اس پر بھی مشورہ ہے امید ہے اس مشورےپر کان نہیں دھرے جائیں گے کرونا سے تو ہم چندوں سےبچ جائیں گے نہیں تو فالتو تعلیمی بجٹ سے کٹوتی کرکے کرونا سے لڑ یا ڈر جو بھی مناسب لگے لیا جائے مگر ہمارے وزیر اعظم کو جو بھارت اور چین کی سرحدی جھڑپوں سے نیا خوف لاحق ہوا ہے کہ بھارت اسکا بدلہ ہم سے لے گا اسکے تدارک کیلئے دفاعی بجٹ میں دس گنا اضافہ کیا جائے کیونکہ ان جیسا بہادروزیر اعظم جو کرونا سے بھی نہیں ڈرتا عوام کی۔خاطر پریشان ہو یہ پریشان عوام کو منظور نہیں۔ ویسے بھی  

اگر کرونا ہے تو ان اقدامات کے ذریعے پھیلنے کا قوی امکان ہے سو آبادی کم ہو ہی جائے گی تو اس طرح  کم از کم کرونا سے بچ جانے والے بھارتی جارحیت سے ہی بچ جائیں۔کیسے کس طرح اسکی ہماری کیا پالیسی ہوگی اب اس بات پرمخمصے میں مت پڑیئے۔ جانے دیں۔۔۔ 

  

aik aur raiyay by Nazia Zaidi sochna tu paryga 


 #aikaurraiayay #Pakistanipolitics #think #syasat #parliment #IamPakistan #democracy #syasibatain #khabrain #tajziyay #pakistan #lahore #karachi #islamabad #india #pakistani #love #instagram #fashion #photography #imrankhan #urdu #follow #urdupoetry #instagood #pakistanistreetstyle #punjab #kashmir #peshawar #poetry #nature #islam #pakistanzindabad #like #dubai #rawalpindi #tiktok #pakistanifashion #bollywood #bhfyp
#covid19

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

Quaid e azam ke 14 nakat pehla nukta

احمقوں کا ریوڑ Bewildered Herd and modern era

ففتھ جنریشن وار اور ہم