Pakistani society and men's anger
پاکستان جس اخلاقی تنزلی کا شکار ہے اسکی مثال نہیں ملتی۔ آئے دن کہیں بچوں کے ساتھ ذیادتی کے واقعات سامنے آتے ہیں کوئی مدرسے کا معلم ہوتا ہے تو کوئی قریبئ رشتے دار ۔ جن سے مار دینا معصوم جانوں کو تو اب معمول کی بات لگتی ہے۔ ابھی پچھلے دنوں اسلام آباد کے ایک اسکول کی پرنسپل نے ٹوئٹر ہینڈل استعمال کرتے ہوئے ایک بچے کی تصاویر پھیلائیں جس کو اسکی ماں نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا وجہ پڑھائی میں دلچسپی نہ لینا بتائی گئ تھی اور اب ایک شقی باپ کا اپنے بارہ سالہ بچے کو اسی وجوہ کی بنا پر بچے کو تیل چھڑک کر زندہ جلا دینے کا واقعہ سامنے آگیا ہے۔ پڑھائی کو ہوا بنا دیا گیا ہے جیسے پڑھ لکھ کر بچے ایکدم سے بہترین طرز زندگی اختیار کر سکیں گے۔حالانکہ اس ملک میں جو حالات چل رہے ہیں اس وقت بڑھتی عمر کے بچوں کو ہنر سکھانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ معاشی طور پر مستحکم ہو سکیں۔ تعلیم میں بچوں کی دلچسپی کا نہ ہونے کے اسباب اور تعلیم و ہنر کا انتخاب ایک طویل بحث ہے۔ اس وقت میں اس معاملے پر بات کرنا چاہ رہی ہوں جسکی وجہ سے سگا باپ یا سگی ماں ایک وحشی بھیڑیئے کا روپ دھار لیتے ہیں۔آخر کیا وجہ ہے اولاد کے سب سے سچے خیر خواہ ان کو دنیا میں لانے کا سبب بننے والے انکی جان کے درپے ہو گئے آخر کیسے کیوں؟
وجہ ہمارا رویہ ہے۔ ہم آہستہ آہستہ اپنے گرد اپنے رویوں سے بھیڑیئے پیدا کر رہے ہیں جو اپنے اندر موجود اضطراب اور بے چینی پر قابو پانے کی بجائے اسے اپنے بچوں پر نکال رہے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں مرد کو ایک اہم اور بہتر مقام دے دیا گیا ہے۔ اسکو اسکے رویوں میں حق بجانب قرار دینے میں سب سے اہم کردار ہمارے بڑوں کی اس تربیت کا ہے کہ مرد کو تو غصہ آتا ہی ہے مرد غصے میں ہو تو آگے سے خاموش ہو جائو۔ غصہ مرد کی شان ہے وغیرہ۔ ایک ایسا لڑکا بچہ جس کو یہ سب سننے کو ملا ہو وہ کبھی اپنے غصے کو برداشت کرنے کا سوچنا تو دور اپنے غصے کے سامنے کسی اور کے ردعمل کو بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوگا۔غصہ اسلام میں حرام قرار دیا گیا ہے تو پھر ایسی باتیں کرنے والے مرد کے غصے کو شہہ دینے والے کیا حرام کام پر نہیں اکسا رہے۔ اس رویئے کی وجہ سے ایک مرد غصہ ور بن جاتا ہے۔اب اسکے غصے سے ڈرنے والے سب سے پہلے اسکے اپنے ماں باپ بہن بھائی اور آخر میں اسکو ہمیشہ برداشت کرنے پر معمور بیوی ۔ اب یہ انسان جسکو معلوم ہے کہ اسکے غصے کی اتنی اہمیت ہے کہ اگر وہ غصے میں ہو تو اسکے گرد سب لوگ صرف برداشت ہی کریں گے اسکا غصہ کیونکر نہ بڑھے؟ آپ لوگ ایسی باتیں کرکے ایک مرد کو غصہ پی کر ایک بہتر انسان بننے پر مجبور کرنے کی بجائے ایک غصیلے ناقابل برداشت انسان بنا دیتے ہیں۔ اسی واقعے کو دیکھ لیں باپ کا اپنے بیٹے کو سخت ترین سزا دینے کا سوچنا غصے میں بے قابو ہو کر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھنا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ماں اس بچے کو بچانے آئی مگر بچا نہ پائی۔ اچانک ہی اس شخص نے غصے میں آکر تیل نہیں چھڑکا ہوگا ۔پہلے بچے کو ڈانٹا ڈپٹا ہوگا مارا ہوگا پھر جب اس غصے کی تسکین نہ ہو سکی تو وہ بدترین درندگی پر اتر آیا۔ اور ماں اس سب تک برداشت کرتی رہی کہ شوہر کو غصہ آئے تو اسے آگے سے برداشت کرنے کی ہی ترغیب دی گئ ہے ہمیشہ۔ ایک نارمل خاندان جس میں مرد کے غصے کو شہہ نہ دی گئ ہوتی اسکے گرد اسکے غصے سے خائف ہونے والے لوگ نہ ہوتے تو کیا اتنا بڑا ظلم ہو سکتا تھا ایک بارہ سالہ بچے پر۔ دوسری طرف اس عورت اس ماں کا سوچیئے جو مہنگائی سے پریشان ہے شوہر اور سسرال کا غصہ سہتی ہے اسکے اپنے اندر کتنا غصہ فرسٹریشن بھر چکا ہوگا۔اور یہ نکلے گا کس پر۔ اپنے پیدا کیئے ہوئے بچوں پر جن پر اسکا تھوڑا بہت اختیار ہے۔ سارا معاملہ اختیار اور حکومت کا ہے۔ جس کو جس پر برتری حاصل ہے وہ اس کو دباتا ہے۔
جو حالات ہیں پاکستان کے جتنی ذہنی پریشانی میں یہ عوام مہنگائی کی وجہ سے مبتلا ہے کوئی حیرت نہیں کہ اس معاشرے کے لوگ بدترین یاسیت کا شکار ہورہے ہیں۔ غصہ اضطراب بے چینی سرائیت کرچکی ہے اس میں جب جب حکومت کو کوسنے کا دل کرے وہاں یہ بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ آخر پورا پاکستان ہی کیوں نہیں اس جارحیت پر اتر آیا ہر باپ کیوں نہیں اپنے بچے جلاتا ہر ماں کیوں نہیں اپنی نا آسودگیوں کا انتقام اپنی اولاد سے لیتی ہے۔وجہ صرف گھر کا ماحول ہے ۔ اگر آپ اپنے شوہر کے آگے بولنے کی جرات نہیں کر پاتیں اپنے شوہر کے غصے سے ڈرتی ہیں تو کم از کم اپنے بیٹے کو ایسا بنائیں جو اپنے آپ اپنے غصے پر قابو کرنا جانتا ہو۔اسکو یہ استثنی حاصل نہ ہو کہ وہ تو مرد ہے ۔ اسکا تو غصہ کرنا جائز ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں