Pakistani media and its pros and cons

 

مشہور کینیڈین مفکرمارشل مک لوہن  کا قول ہے

"میڈیم پیغام ہے

 جس کا مطلب ہے کہ میڈیم کی شکل پیغام میں خود کو سرایت کر لیتی ہے، جس سے ایک علامتی تعلق پیدا ہوتا ہے جس کے ذریعے میڈیم اس بات کو متاثر کرتا ہے کہ پیغام کو کیسے سمجھا جاتا ہے۔

 یعنی میڈیا کے بارے میں اہم چیز وہ پیغامات نہیں ہیں جو وہ لے جاتے ہیں بلکہ

میڈیم خود انسانی شعور اور معاشرے کو بڑے پیمانے پر متاثر کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ایک ٹی وی کا مالک ہونا جو ہم دیکھتے ہیں اس سے زیادہ اہم ہے کہ ہم اس پر جو کچھ بھی دیکھتے ہیں۔

ٹیلی ویژن جدید ثقافت کا ایک ناگزیر حصہ ہے۔یہ ہمارے گھروں کا اہم حصہ بن چکا ہے۔گھر کے ہر فرد کے لیے کچھ نہ کچھ دلچسپی کا سامان فراہم کرنے والا            ،اسکی  آمد کے بعد سے ہم تفریح، خبروں، تعلیم، ثقافت، موسم، کھیلوں اور یہاں تک کہ موسیقی کے لیے ٹی وی پر انحصار کرتے ہیں۔ ٹی وی دیکھنے کے زیادہ سے زیادہ طریقوں کے ساتھ اب ہمارے پاس اچھے معیار اور نامناسب ٹی وی مواد کی بہتات تک رسائی ہے۔ذرائع ابلاغ کو آج عالمگیریت کو بڑھانے، ثقافت کے تبادلے میں سہولت فراہم کرنے اور بین الاقوامی خبروں کی نشریات، ٹیلی ویژن پروگرامنگ، نئی ٹیکنالوجیز، فلم اور موسیقی کے ذریعے ملکوں کے درمیان معلومات اور تصویر کے متعدد بہاؤ میں کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے دیکھا جاتا ہے۔مواصلات  میں پیش رفت، بڑی حد تک انٹرنیٹ کے ذریعے، معلومات تک کمیونٹی کی رسائی کو بہتر بناتی ہے۔ اس لیے میڈیا معاشرے میں معلومات کے ایک ذریعہ کے طور پر، بلکہ ایک "واچ ڈاگ" یا چھان بین کرنے والے کے طور پر بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔۔

میڈیا کے بنیادی تین مقاصد ہیں

 

معلومات کی فراہمی ۱:

تفریح کا ذریعہ ۲:

۳: اشتہارات

بد قسمتی سے ہما را میڈیا ہر  اعتبار سے ان تینوں مقاصد کو پورا کرنے میں ناکام ہے.

 

پاکستان بطور معاشرہ

پاکستانی معاشرہ پیدائش، ابتداء یا ثقافتی پس منظر کے حوالے سے ایک متنوع معاشرہ ہے۔ پاکستان ایک زراعت پر مبنی ملک ہے جہاں کی تقریباً 80 فیصد آبادی گاؤں میں رہتی ہے۔ خواتین آبادی کا 52% پر مشتمل ہیں لیکن یہ مردانہ اکثریتی معاشرہ ہے جس میں سماجی ترقی معاشی تبدیلیوں سے کافی پیچھے رہ گئی ہے، پاکستانی معاشرے کو صفائی، صحت کی دیکھ بھال تک رسائی اور خواندگی جیسے چیلنجز کا سامنا ہے، خاص طور پر خواتین میں۔ سماجی اور اقتصادی عدم مساوات کے اس انداز کے ساتھ محدود وسائل پر آبادی کا بڑھتا ہوا دباؤیہ سب بنیادی مسائل ہیں پاکستان کے،مزید براں  پاکستان میں مختلف قومیت کے لوگ بستے ہیں جن کی زبان بودوباش رہن سہن نسلی اور ثقافتی تنوع ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہے . اتنے متنوع مزاج کے لوگوں سے ایک میڈیم کے ذریعے مخاطب ہونا آسان کام نہیں.

پاکستانی میڈیا لینڈ سکیپ 

پاکستان ایک کثیر لسانی میڈیا کا منظر نامہ ہے جس کے ناظرین مختلف ہیں، لیکن اردو زبان کی رسائی کسی بھی زبان سے زیادہ ہے۔ ہر مقامی زبان کی میڈیا فرم کے اپنے سامعین ہوتے ہیں۔ انگریزی میڈیا گروپ موجود ہے لیکن سامعین کی کمی کی وجہ سے وہ پاکستان میں مشکل سے زندہ رہتے ہیں.اس وقت پاکستانی انگریزی زبان کا کوئی ٹی وی چینل یا ریڈیو اسٹیشن نہیں ہے۔ علاقائی زبان کا میڈیا مختلف سطح پر اثر و رسوخ پر فخر کرتا ہے مگر  زیادہ تر اپنے مخصوص علاقوں تک محدود ہے۔

پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں انتہائی تبدیلیوں کی وجہ سے، پاکستانی خبروں اور حالات حاضرہ کے چینل کے ناظرین کی تعداد کسی بھی تفریحی چینل سے زیادہ ہے۔

پی ٹی وی کا سنہری دور

 

جب کبھی پاکستانی ٹیلی ویژن کی بات کی جاتی ہے ماضی کے پی ٹی وی کے سنہری دور کو بھلایا نہیں جا سکتا۔ ٧٠ سے ٩٠ تک کی دہائی کو پی ٹی وی کا سنہری دور سے موسوم کیا جاتا ہے۔.

پی ٹی وی پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن پاکستان کا سرکاری ٹیلی ویژن براڈکاسٹر ہے، جس کی بنیاد 26 نومبر 1964 کو رکھی گئی تھی۔اس کے بعد سے ان کے قومی نشریاتی ادارے نے ترقی کی ہے، اور آج اسلام آباد، لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ، مظفرآباد، آزاد جموں و کشمیر اور ملتان میں پی ٹی وی کے مراکز ہیں ملک کا سب سے بڑا زمینی انفراسٹرکچر ہے۔ پی ٹی وی نیٹ ورک کا گلدستہ نو ٹی وی چینلز پر مشتمل ہے یعنی پی ٹی وی ہوم، پی ٹی وی نیوز، پی ٹی وی ورلڈ، پی ٹی وی اسپورٹس، پی ٹی وی گلوبل، پی ٹی وی بولان، پی ٹی وی نیشنل، پی ٹی وی پارلیمنٹ اور اے جے کے ٹی وی۔

آغاز میں ٹی وی متمول گھرانوں تک محدود تھا. پورے محلے میں کسی ایک گھر میں ہوتا تھا.رفتہ رفتہ ٹی وی گھر

 گھر پہنچنے لگا تو اس بات کی اہمیت مزید بڑھ گئی کہ ہر گھر میں ہر عمر کے فرد کی دلچسپی کاپروگرام بنایا جائے. تمیز تہذیب یافتہ زبان و لب و لہجے پر خصوصی توجہ دی گئی. ملک کا پڑھا لکھا ہنر مند طبقہ اور دانشوروں کی خدمات لی گئیں. مقصد محتاط طریقے سے عوام کو سستی تفریح اور تعلیم و تربیت فراہم کرنا تھا.اس میں کافی حد تک کامیابی بھی ہوئی.

خدا کی بستی ،تعلیم بالغاں ، پرچھائییاں سے لے کر وارث ، الف نوں ،، ان کہی، تنہیائیاں ، دھوپ کنارے، تک موضوعات کہانی اور پروڈکشن کے اعتبار سے نہ صرف مختلف تھے بلکہ ان ڈراموں نے معاشرے پر مثبت اثر بھی ڈالا.لوگوں نے تنہائیاں میں ایک منفرد لڑکی کو والدین کے بعد خود با عزت نوکری کر کے خود کفیل ہوتے دیکھا تو نوکری کرنے والی خواتین کے بارے میں بری رائے بدل لی ، دھوپ کنارے میں ورک پلیس پر محتاط تعلقات بنانے کے ترغیب ملی تو وارث خدا کی بستی جیسے ڈراموں سے معاشرتی اخلاقی برائیوں کی نشاندہی بھی ہوئی. یہ وہ وقت تھا جب تفریح کا واحد ذریعہ عوام کے پاس ٹی وی کی صورت میسر تھا،. رات ٨ بجے جب اکلوتے ٹی وی چینل پر کوئی ڈرامہ لگتا تھا تو سڑکیں ویران ہو جاتی تھیں لوگ اپنے پورے خاندان کے ساتھ بیٹھ کے ڈرامہ دیکھنا پسند کرتے تھے

 

محتاط زبان استمعال کی جاتی تھی کہ بچے اور بزرگ بھی ناظرین میں شامل ہیں  اور لب و لہجے پر خصوصی دھیان دیا جاتا تھا کہ اردو کی ترویج میں کہا جا سکتا ہے پی ٹی وی کا کافی مثبت کردار رہا ہے

بچوں کے لئے خصوصی پروگرام بنائے جاتے تھے. نظمیں ترانے گانے بنائے جاتے تھے کرتوں پروگراموں کو اردو دبنگ سے چلایا جاتا تھا، کھل جا سم سم عینک والا جن جیسے پروگرام بیحد مقبول ہوئے۔

پی ٹی وی کا زوال

یوں تو ہر شے کو زوال ہے مگر پی ٹی وی کے زوال میں پے در پے سیاسی مداخلتوں کا بڑا ہاتھ ہے.

فوجی حکومتوں میں سب سے پہلے نزلہ پی ٹی وی پر گرایا گیا. کبھی ٧٠ میں سینسر پالیسی نرم کر دی گئی ذولفقار علی بھٹو کی جانب سے تو٨٠ کی دہائی میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں شدید سنسر لگایا جاتا رہا.من پسند بھرتیاں کی گیں تو کی با صلاحیت لوگ تخلیقی صلاحیتوں پر پابندی کے بعد بد دل ہو کر چھوڑتے گیے.پی ٹی وی کو جدید دور کے تقاضوں سے نہ ہم آہنگ کیا گیا نہ ہی مزید ٹی وی چنیلوں کے اجرا کے گیے. دوسری جانب اردو زبان کے بھارتی میڈیا نے عروج حاصل کیا..  بھارتی مواد جنوبی ایشیا میں پھیلتا گیا پاکستان کے لوگ بھی اس لہر سے زبان کی مماثلت کی وجہ سے متاثر ہویے اور ڈش اور کیبل کی طرف متوجہ ہوئےْ ْ۔

90کی دہائی میں جنرل پرویز مشرف نے پاکستان میں دوبارہ فوجی آمریت مسلط کی .پی تی وی کو پھر سخت سنسر شپ کا سامنا کرنا پڑا پچھلی حکومت میں کام کرنے والوں نوکری سے نکالا جانے لگا.مخصوس سوچ پر مبنی مواد ہی بس نشر ہو سکتا تھا. امریکی نائن الیون کے واقعے کے بعد لوگ باخبر رہنے کے لئے بڑی تعداد میں غیر ملکی میڈیا کی جانب متوجہ ہوئےکیبل کا دور  آیا .پاکستانی میڈیا ہاؤسز نے دبئی اور لندن سے اپنے چینلز کاآغاز کیا اور پی ٹی وی اپنا مقام کھوتا گیا۔

نجی  ٹی وئ   ادارے ۔

جب 2000 کے اوائل میں جنرل پرویز مشرف نے بہت سے پاکستانی ٹی وی چینلز کو مین سٹریم میڈیا میں حصہ ڈالنے کی اجازت دی تو پاکستان کے کاروباری طبقے کو میڈیا کے کسی پس منظر کے بغیر میڈیا چینل کے لائسنس دیے گئے، تجربے کی کمی کے باعث بہت سے ٹی وی چینلز صرف چیزوں کی تشہیر کے لیے قائم کیے گئے۔ اس سے پیسہ کمائیں۔ پاکستانی میڈیا ایک ملکیتی ڈھانچہ پر مشتمل ہے۔ تین غالب میڈیا مغل، یا بڑے میڈیا گروپس ہیں، جن کی کسی حد تک سیاسی وابستگی بھی ہے۔ میڈیا پر بھی اسٹیبلشمنٹ کا براہ راست اثر ہے

مزید ایک دوسرے سے سبقت لی جانے کی کوشش تی ار پی  اور زیادہ سے زیادہ اشتہارات حاصل کرنے کے لئے انکو بہت سے معاملات پر سمجھوتے سے کام لینا پڑتا ہے. جیسے مشہور نور مقدم کیس میں قاتل کی ماں کے کیس میں ملوث ہونے کی خبر میں نام تک نہیں لیا گیا ایک مشہور با اثر خاندان سے وابستہ ہونے کی وجہ سے ، مشہور پراپرٹی گرپ کے مالک کا نام کئی سکنڈل میں بڑھ راست نہیں لیا گیا جب خبروں میں اتنا دباؤ ہو سکتا ہے تو عام پروگراموں کا کہنا ہی کیا

 

پاکستانی نجی میڈیا کی غلطیاں

بھارتی مواد کی اندھی تقلید

غیر ملکی خاص کر بھارتی مواد کے مقابلے میں پاکستانی میڈیا نے جو پہلی غلطی کی وہ ناظرین کو واپس پاکستانی چینل پر لانے کے لئے اسی طرز کا مواد بنانا  شروع کیا ڈراموں ٹی وی شوز کے ساتھ ساتھ نیوز پروگراموں میں بھی شدید بھارتی میڈیا کی جھلک دکھائی دیتی ہے. ۔

پہلے کون بنے گا کروڑ پتی کی طرز کے پروگرام ہر چینل نے تقریبا پیش کئے. آجکل بگ باس کی طرز کا پاکستانی پروگرام تماشا چل چکا ہے اور بھارتی ہی ایک اور پروگرام خطروں کی کھلاڑی کی طرز کا پاکستانی پروگرام جلد آنے والا ہے .بھارتی ڈرامہ ناگن مشہور ہوا تو پاکستان نے بھی اسے بنا ڈالا یہ خیال کئے بنا کہ اسلام میں ناگ کا انسان بن جانے کا کوئی تصور نہیں۔

زبان اور تہذیب سے دور مواد

زبان و بیان پر کوئی توجہ نہیں ہے . ہر طرح کی بازاری زبان اب ٹی وی پر سننے کو مل جاتی ہے . غیرضروری طور پر انگریزی الفاظ کا استمال کیا جاتا ہے .مثال کے طور پر کسی پروگرام میں وقفہ لینا ہو تو بھی ایک بریک کے بعد ملتے ہیں کہا جاتا ہے ، ڈراموں میں زبان دانی کا بلکل خیال نہیں رکھا جاتا ہے. عام سے اردو الفاظ کے بھی انگریزی متبادل الفاظ کثرت سے استمال کئے جاتے ہیں نیز بحث کے دوران ایک دوسرے پر ہاتھ اٹھا دینا رواج بن چکا ہے ہر ڈرامے میں آجکل کم از کم ایک عہدہ منظر تھپڑ پر مشتمل ہے جس سے عوام میں عدم برداشت پیدا ہو رہا ہے۔

 

مخصوس چہروں کی اجارہ داری

ٹی وی پر کچھ مخصوص ہی چہرے ہر بڑے پروجیکٹ پر نظر آرہے ہیں. ہر قسم کے پروگرام کے لئے چند ہی میزبانوں سے رابطہ کیا جاتا ہے اور ڈراموں میں اس سے بھی برا حال ہے. چند مخصوص چہروں کو مخصوص کرداروں تک محدود کیا گیا ہے. بالوں کا انداز سنگھار تک ایک جیسا ہے ۔مرکزی کرداروں  میں ماہرہ خان، عایزاخان ، ثنا جاوید نظر آتی ہیں تو دو  دہایوں سے مرکزی کرداروں میں فیصل قریشی ہمایوں سعید وغیرہ ہی نظر آرہے ہیں۔

موضوعات کی یکسانیت

ایک ہی موضوع پر کئی ڈرامے ٹی وی کی زینت بن چکے ہیں ۔ایک ڈرامہ مشہور ہوا تھا "چپ رہو "جس میں ہیروئن کو اسکا سگا بہنوئی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالتا ہے اس موضوع پر اب تک درجن بھر ڈرامے بن چکے ہیں .شوہر کا بیوی پر شک کرنا ، اس پر ظلم کرنa معمول کی بات بن چکی ہے دوسری شادی اور  زیادتی ہمارے لکھاریوں کا پسندیدہ موضوع بن چکا ہے خواتین کو  ہر طرح کا تشدد برداشت کرنے کا سبق دیا جا رہا ہے . مردوں کے لئے غصے میں اپنا آپا کھودینا اور بیوی پر ہاتھ اٹھانا معمول کی بات بن چکاہے    ہمارے ڈرامے میں رشتوں کا تقدس پامال کیا جا رہا ہے ڈراموں کے موضوعات گھروں تک محدود ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ ہمارے ملک میں ٨ بجے کا ڈرامہ پورا خاندان بیٹھ کے دیکھ رہا ہوتا ہے ہمارے ڈرامے نہایت بیباک موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں بلکہ وقت کے ساتھ بیباک منظر کشی بھی ہمارے ڈرامے کا حصہ بن رہی ہے. اداری ڈرامہ بہت  مشھور ہوا مگر اس میں جا بجا جنسیات پر کھل کے بات کی ۔.

دقیانوسی طرز پر کرداروں کی منظر کشی

لڑکیوں کا ، انکے کردار مظلوم روتی  دھوتی لڑکیوں پر مشتمل ہیں تو تو لڑکوں کے چند ہی مخصوس کردار تخللیق کئے جا رہے ہیں جن میں انکو شدید غصہ ور اور بد  تمیز دکھایا جا رہا ہے۔ساس  کا کردار منفی ہی دکھایا جارہا ہے۔  

متشدد محبت کو فروغ دیا جا رہا ہے . ایسے کئی ڈرامے چل چکے ہیں جن میں ہیرو نے زبردستی ہیروئن کو اغوا کیا دھمکایا اور شادی کی جیسے عشق ہے ،اور دیوانگی موضوع کے اعتبار سے ایک جیسے تھے۔

 

غیر ملکی مواد قومی چینل پر دکھانا

قطع نظر اسکے کہ آجکل غیر ملکی مواد تک رسائی آسان ہے پھربھی بنا موضوعات کی سنگینی پرکھے کی ترکی ڈرامے اردو دبنگ کے ساتھ چل چکے ہیں جن سے پاکستانی معاشرے کی قطعی کوئی مماثلت نہیں ہے۔ارتغرل  ڈرامہ بے حد پسند آیا لوگوں کو مگر اس میں  تشدد بہت کھل کر دکھایا گیا ہے جو کچے ذہنوں کے لئے نقصان دہ ہے اس ڈرامے کو ترکی میں صرف بالغوں کے لئے مخصوص کیا گیا ۔ بہت کھل کر دکھایا گیا ہے جو کچے ذہنوں کے لئے نقصان دہ ہے اس ڈرامے کو ترکی میں صرف بالغوں کے لئے مخصوس کیا گیا مگر پاکستان میں ایسی کوئی شرط نہیں رکھی گئی ۔

بچوں نے بھی دیکھا اسے جیسے بچوں کا سر کاٹنا وغیرہ ، عشق ممنوع میں بیباک منظر دیکھے گیے ،تو سپریم کورٹ کی پابندی کے باوجو د پاکستانی  چینلوںپر بھارتی ڈرامے ہندی میں ہی پاکستان میں چلے یہ سیدھا سیدھا معاشرتی قتل ہے پاکستانی قوم کا کہ انکو غیرملکی معاشرت زبان و بیان پر مشتمل مواد دکھایا جائے انکے اپنے ہی چنیل پر۔

 

 شوز اورمرد و  خواتین پر انکا اثر

مارننگ شوز نے دکھاوے اور اسراف کی نیی راہ ہموار کی ہے. مہنگے ترین برانڈز کے کپڑے جوتے اور میک اپ کی باتیں ہوتی ہیں شادی بیاہ کے لئے نے رواجوں کو فروغ دیا جاتا ہے جس سے مالی نا آسودہ خواتین جہاں دل مسوس کے رہ جاتی ہیں وہاں سفید رنگت کرنے کا شوق دبلاپے کے لئے فاقے کرنے کی ایک اندھی تقلید شروع ہو چکی ہے۔

جہاں خواتین خود کو نکھارنے کے لئے پاگل پن کی حد تک ان شوز کی ہر بات کی پیروی کرتی ہیں وہاں مرد حضرات نے بھی اپنا میار بلند کر لیا ہے اور اپنی بیویوں سے ایسےہی فٹ اور خوبصورت دکھائی دینے کا مطالبہ کرنے لگے ہیں۔

تو جیتو پاکستان جسی پروگرام میں معمولی چیزوں کے لئے دنیا بھر کے سامنے لوگ ہر طرح کی حماقت بھری حرکت کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں اس سے پاکستان کا نام دنیا بھر میں بدنام ہو رہا ہے۔.

پاکستانی میڈیا اور بین الاقوامی میڈیا کا موازنہ

بین الاقوامی میڈیا سے تو پاکستان کا موازنہ کیا نہیں جا سکتا.ہالی ووڈ  کی تکنیک انکا بجٹ انکے موضوعات چاہے وہ کوئی بھی سماجی موضوع  ہو پوری ایک ٹیم تحقیق کرتی ہے کبھی کوئی سائنس فکشن کہانی سامنے لاتے ہیں تو کبھی دیو مالائی.آپ گڈڈاکٹر میں ہر قسط میں ایک بیماری کے حوالے سے ڈرامے کے دوران کہانی میں معلومات دی جاتی ہے اور اسکے تدارک کا طریقہ بھی بتایا جاتاہے. بیگ بانگ تھیوری میں مرکزی کردار ایک بہت زہین سائنسدان ہے تو دی کراوؤں میں شاہی خاندان کی کہانی نہات دلچسپ پرائے میں بتائی جا رہی ہے یہ سب کام پاکستان میں کرنے کے لئے نہ صرف ہمیں بہت بجٹ چاہیے بلکہ زہن سازی کی ۔بھی ضرورت پڑیگی۔ .

اگر ہم ایشیائی ممالک کی بات کریں تو چین کوریا تھائی لینڈ اور بھارت میں بھی عمومی طور پر گھریلو موضوعات کا احاطہ کیا جاتا ہے مگر ایک واضح فرق نظر آتا ہے بر صغیر کے ڈراموں اورشمالی ایشیا کے ڈراموں میں

بر صغیر پاک و ہند میں چند مخصوص دقیانوسی طرز کے کردار نظر آتے ہیں جن میں مرد کی حاکمیت غصہ برتری نمایاں نظر آتی ہے تو عورت کی خوبصورتی مظلومیت اور کمزوری کو اجاگر کیا جاتا ہے ڈراموں میں . اسکے بر عکس کوریائی چینی ڈراموں میں گھریلو تشدد کو یا تو دکھایا کم جاتا ہے یا انتہائی غلط تصور کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔

اسکا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ ایسا ہی ہو رہا ہے معاشرے میں جو دکھایا جا رہا ہے۔

یہ خطرناک مکالمہ ہے. ہم تشدد  دیکھا دیکھا کر بےحسی رائج کردیتے ہیں لوگ عملی زندگی میں روز   نہ جنسی زیادتی کے  واقعات اپنے گرد دیکھتے ہیں نہ ہر مرد اپنی بیوی کو غصے میں پیٹ دیتا ہے نہ ہی پاکستان کے ہر دوسرے مرد نے دو شادیاں کر رکھی ہیں. جب کے ٹی وی پر آپکی عوام  یہ سب موضوعات روز دیکھ رہی ہے۔.

 

کیا بین الاقوامی ڈرامے انکے معاشرے کے عکاس ہیں ؟

جواب ہے نہیں . ہر ملک کے ڈرامے انکے معاشرے کے عکاس نہیں ہوتے کہیں نہ کہیں مبالغہ ضرور استمال ہوتا ہے

. کوریا خواتین کے لئے غیر محفوظ ترین ملک ہے ایشیا کا مگر وہاں کے ڈراموں سے یہ تاثر ملتا ہے کہ کورین مرد دنیا کے سب سے سلجھے ہوۓ خواتین کا احترم کرنے والے اورر انکا خیال رکھنے والے ہیں . وہ اپنے معاشرے کو  یہ سب دکھا کر انکو زندگی کا اچھا رخ دیکھا کر تربیت کر رہے ہیں

کورین ڈراموں میں موضوعات کی کوئی قید نہیں ہے

کبھی زومبیز ڈرامہ بناتے ہیں کبھی بھوتوں پر محبّت کی کہانی ہے تو بچوں کے لئے الگ مواد ہے

کھیلوں پر بننے والے ڈرامے نہ صرف دلچسپ ہیں بلکے اس کھل کے متعلق اتنی زیادہ بنیادی معلومات ڈرامے میں بتائی جاتی ہے کہ اخری قسط تک  آپ اس کھیل کے بارے میں بہت کچھ  جان چکے ہوتے ہیں

کورین ڈراموں میں انگریزی الفاظ خال خال ہی سننے کو ملتے ہیں انہوں نے بہت سے انگریزی لون وورڈز کا ھنگل ا ترجمہ کر رکھا ہے جسیے گرل فرینڈ کو یوجا شنگو {لڑکی دوست }ترجمہ کیا  انہوں نے کثرت سے استمال کر کے اس لفظ کو عوام کی زبان پر چڑھا دیا بجائےاسکے کہ وہ گرل فرینڈ ہی کہتے۔. .

کوریا نے کوڑے کی چھانٹی کے لئے ڈویلپمنٹ سپورٹ مہم ڈراموں کے ذریعے شروع کی جس میں تقریبا ہر ڈرامے میں کوئی نہ کوئی کردار کوڑے کی چھانٹی کرتا دکھائی دیا اس سے انہوں نے الگ مہم چلانے کا خرچہ بچایا اور عوام کو تفریح کے ساتھ شعور بھی دیا کے کوڑے کو آیندہ کیسے ٹھکانے لگائیں

کورین اپنی ثقافت اور تفریحی مقامات کے فروغ کے لئے کوریا کے ڈراموں کو ہی استمال کرتے ہیں.ڈراموں کے پس منظر مناظر میں کسی تفریحی مقام کی معلومات دینا بصری اور زبانی طور پر تو ثقافتی تاریخی ڈراموں کے ذرے نیی نسل کو انکی جڑوں سے روشناس بھی کرا رہے ہیں.

کوریا ڈرامہ انڈسٹری اس وقت دنیا کی سب سے مشھور ڈرامہ انڈسٹری ہے، وہ اپنی اس انڈسٹری کا بیحد کھل کے مثبت استمال کر رہے ہیں ہمیں اشیائی ملک کے اعتبار سے انکے معاشرے میں کچھ اپنے معاشرے کی جھلک ملتی ہے ہم ان سے کافی کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

 

 

 

 

 

aik aur raiyay by Nazia Zaidi sochna tu paryga #aikaurraiayay #Pakistanipolitics #think #syasat #parliment #IamPakistan #democracy #syasibatain #khabrain #tajziyay #pakistan #lahore #karachi #islamabad #india #pakistani #love #instagram #fashion #photography #imrankhan #urdu #follow #urdupoetry #instagood #pakistanistreetstyle #punjab #kashmir #peshawar #poetry #nature #islam #pakistanzindabad #like #dubai #rawalpindi #tiktok #pakistanifashion #bollywood #bhfyp #pakistaniblogger #pakistan #pakistanibloggers #pakistani #lahore #pakistanifashion #karachiblogger #blogger #pakistanistreetstyle #karachi #foodblogger #islamabad #fashionblogger #instagram #pakistanicelebrities #lifestyleblogger #aimankhan #pakistaniwedding #instagood #ootd #karachibloggers #dawn #love #desiblogger #pakistaniweddings #ary #bcw #pakistanentertainment #talkistanofficial #bhfyp سیاسی منظر نامہ

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

Quaid e azam ke 14 nakat pehla nukta

احمقوں کا ریوڑ Bewildered Herd and modern era

ففتھ جنریشن وار اور ہم