Ek hay Nazia...
زندگی میں کامیاب لوگ تو بہت سے ہوتے ہیں مگر سب پر ڈرامے نہیں بنتے۔ ڈرامے ویسے بنتے جن پر ہیں انکو کامیاب سمجھا جاتا ہے مگر ایسا بھی نہیں کہ کامیاب وہ نہیں جن پر ڈرامے بن نہ سکے۔ خیر جن جن پر ڈرامے بنے انکو سلام اور جن پر نہ بن سکے وہ خود ڈرامہ بنا لیں اپنے اوپر۔ اب یہی ہو سکتا ہے کیونکہ ڈرامے چیدہ چیدہ کامیاب لوگوں پر ہی بن سکے ہیں سو اگر آپ خود کو کامیاب سمجھتے ہیں تو خود اپنے لیئے ایک عدد پروڈیوسر کا انتظام کر لیں۔ میرا بھی بڑا دل ہے کہ میں خود پر ڈرامہ بنائوں۔ یہ بات تو سب مانیں گے کہ میں خود بھی بہت بڑا ڈرامہ ہوں مگر چونکہ میرا شوق ہے مجھ پر بھی ڈرامہ بنایا جائے اسلیئے بس مجھے ایک اچھے پروڈیوسر کی تلاش ہے۔ کہانی آپکو بتا دیتی ہوں۔
لیکن سب سے پہلے نام ہی رکھنا چاہیئے ڈرامے کا سو میرے اوپر بننے والے ڈرامے کا نام ہوگا ایک ہے نازیہ۔
کہانی ہرگز چربہ نہیں ہوگی بس نام مجھے یہی پسند آیا ہے۔ کہانی مختلف ہوگی کیونکہ نازیہ کو نا یونیفارم پسند ہی نہیں ہے ۔ اسکول کالج جاتے وقت یونیفارم پہننے کا سب شوق ووق پورا ہوگیا۔ سو میں ایک عدد کامیاب لڑکی قرار نہیں دی جا سکتی کیونکہ میں کامیاب ہوں ہی نہیں۔ مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ میرے جیسے لڑکی جو نا ڈاکٹر بن سکی نا یونیفارم پہننا پسند ہے اسکو اس پر ڈرامہ بنایا بھی نہیں جا سکتا۔۔ بنایا جا سکتا ہے کہانی میں خود لکھ کر دے رہی ہوں۔۔ کہانی شروع ہوتی ہے ایک عدد بچی سے جسکو بچپن میں سائنسدان بننے کا شوق تھا۔ مگر یہ شوق میٹرک میں سچ مچ سائنس پڑھنے سے کہانی کار بننے میں تبدیل ہوگیا۔ اب یہ بچی سائنسدان کیا آرمی ڈاکٹر بھی بن سکتی ہے کہانی میں۔کہانی کا کیا ہے۔ سو میں ہوتی ایک عدد سائنسدان جس نے پاکستان کیلئے سائنسدان بننے کا خواب دیکھا پایا تکمیل تک پہنچایا اور تو اور پاکستان کیلئے نوبل انعام بھی لے لیا۔
کیا؟ کسی پاکستانی سائنسدان لڑکی نے نوبل انعام نہیں لیا؟ اوہو تو کیا ہوا کہانی ہی تو ہے۔ ہاں تو میری تحقیق کس چیز کے بارے میں تھی یا میں نے ایجاد کیا کیا اس پر بعد میں سوچ لوں گی ابھی تو میں اپنی جد و جہد پر کیسے لڑکیوں نے میرا مزاق اڑایا سائنسدان بننے کا سوچنے پر گھر والے کیسے سائنسدان بننے کی راہ میں میری مدد کرتے رہے وغیرہ پر دس قسطیں لکھ لوں گی اور اگلی چھے اقساط ہوں گی میری علمی تحقیق کے بارے میں اور مجھے جب نوبل پرائز ملا تو میں کیا تقریر کروں گی کہ
میں صرف سائنسدان نہیں ہوں بلکہ میں ایسی سائنسدان ہوں جو لیبارٹری میں بھی لیب کوٹ نہیں پہنتی کہ یونیفارم نہ لگے۔ شیفون کا دوپٹہ لیب کوٹ کی طرح لیتی ہے کیونکہ اس قوم کو مجھ سے امیدیں ہیں۔۔۔
دیکھا کیسی اثر انگیز اور جذباتی تقریر ہوگی میری۔ یقینا نوبل انعام دینے والا فرط جزبات سے مغلوب ہو کر رو پڑے گا اور ایک دو باقیوں سے مانگ تانگ کے بھی نوبل ایوارڈ مجھے تھما دے گا اس لڑکی میں بہت کچھ کرنے کا جزبہ ہے۔
ہو سکتا ہے کل کلاں کو یہ سپر مین سے بہتر دیو مالائی کردار تخلیق کردے۔ سائنسدان ہونے کے باوجود ۔کیونکہ بنیادی طور پر یہ تو کہانی کار ہی ہے۔ ویسے تو خواتین ماشا اللہ سے کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ رہی ہیں پاکستان میں کہیں کوئی کرکٹ کھیلنے پہنچ جاتی ہے ایک لڑکی نے پچھلے دنوں پتہ نہیں کونسا
امتحان دے ڈالا تھا کئی ملکوں کو پچھاڑ کر اول آگئ تھی ، اب کیا پڑھاکو لڑکیوں یا کھلاڑی لڑکیوں پر ڈرامہ بنائیں ۔ دلچسپ ڈرامہ بنانا چاہیئے نا۔
سو ایک ہے نازیہ کا میں نے مرکزی خیال دے دیا اب جس جس پروڈیوسر کو ڈرامہ بنانا مجھ سے رابطہ کر لیں۔ ابھی میں چونکہ کامیاب نہیں ہوں تو کم پیسوں میں بھی ڈرامہ لکھنے پر تیار ہو جائوں گی۔ ویسے تو مجھے سپورٹ کرنے کیلئے پاکستان کے سائنسی تحقیقاتی ادارے کو آگے بڑھنا چاہیے اور ڈرامہ پروڈیوس کر نا چاہئیے نہیں تو ریلوے کا اگر ڈرامے بنانے کا ارادہ ہو تو میری
ہیروئن پاکستان کی پہلی ریلوے انجن ڈرائیور ہو سکتی ہے یا پی آئی اے ڈرامہ بنانا چاہے تو میں اپنی ہیروئین کی پائلٹ کی ڈگری کو امریکہ کی تصدیق شدہ دکھائوں گی ۔۔ ہاں کوئی مسلئہ نہیں ہوگا۔ اور محکمہ زراعت یا پولیس کوبھی اگر ڈرامہ بنوانا ہے تو میری ہیروئن حاضر ہے۔میری ہیروئن پولیس انسپکٹر ہو کر اکیلی حکومت مخالف دھرنے ختم کروادیا کرے گی ، یا زرعی تحقیق کرکے ایسے بیج لیبارٹری میں تخلیق کرے گی جن کو آپ زرخیز زمین میں بوئیں تو ہائوسنگ سوسائٹی اگا کرے گی۔ ہر فن مولا ہو سکتی ہے بھئ سچ مچ کے کرداروں پر مجھ سے نہ لکھوائیں بھئ اسکے لیئے عمیرہ احمد سے ہی رابطہ کیجئےانکو تجربہ ہے ایسے مکالمے لکھنے کا جن کو سن کر پڑھ کر دماغ روشن روشن ہو جاتا ہے۔ ابھی ایک ہے نگار کا مکالمہ ہی دیکھ لیں۔ جانے اصل زندگی
نگار صاحبہ نے اپنی تقریر میں یہ کہا کہ نہیں مگر ایک ہے نگار میں نگار نے تقریر کرتے ہوئے کہاکہ
ہم صرف ڈاکٹرز نہیں ہم یونیفارم والے ڈاکٹرز ہیں ہم سے لوگوں کو امیدیں اورتوقعات ہیں
تو یقین کیجئے اتنا مزاحیہ جملہ لگا یہ ۔ عام لوگ بشمول میں جس کو یونیفارم والے ڈاکٹر آج تک بس ٹی وی میں ہی نظر آئے اصل زندگی میں کبھی پالا نہ پڑا ان سے۔۔۔۔۔۔ ان سے توقعات اور امیدیں وابستہ کرنا ایسے ہی ہے جیسے گھیکوارلا کر گھر میں رکھنا۔مانا کہ بڑا فائدہ مند پودا ہے جلد اچھی ہوجاتی ہے اس سے مگر استعمال کون کرے جب بازار میں اچھی اچھی کریمیں دستیاب ہیں۔۔
بات بھی کہاں سے کہاں نکل گئ۔ ایک ہے نازیہ کے بعد میں بیگم رعنا لیاقت علی اور بیگم سلمی تصدق حسین کی زندگی پر بھی ڈرامہ لکھوں گی مگر اس سے قبل مجھے ان دونوں خواتین کی زندگی پر تحقیق بھی کرنی پڑے گی۔۔ بس نام ہی بچپن میں کبھی پڑھے یاد رہ گئے سنا ہے بڑا اہم کردار ادا کیا تھا پاکستان بننے کے وقت۔ اب ان پر ڈرامہ تو پارلمنٹ ہائوس کو بنوانا چاہیئے دیکھیں وہ اس پر کوئی بل لاتے ہیں ۔ ویسے پارلمنٹ ہائوس نے کبھی ڈرامہ پروڈیوس کیا ہے؟ یا وہ بھی بس ریلوے ، واپڈا اور دیگر سرکاری اداروں کی طرح بس اپنے کام سے کام رکھتے ہیں ڈرامے وغیرہ بنانا پسند نہیں کرتے؟۔ ویسے ان خواتین پر تو پہلے کوئی ڈرامہ بھی نہ بنا کہ نقل مار لوں وہاں سے۔
چلو چھوڑو۔ ہے کوئی پروڈیوسر جو مجھ سے ایک ہے نازیہ ڈرامہ لکھوا لے۔پچاس فیصد ڈسکائونٹ پر۔۔۔۔۔
ابھی بھی مزاق لگ رہا ہے؟ ٹھیک ہے میں اپنے ابا سے کہہ کر اپنے اوپر خود ڈرامہ بنا لوں گی ۔۔۔ ہونہہ
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں