ایک فوجی ریاستek fauji ryasat
فوجی ریاست کی کہانی
ایک ہے فوجی ریاست۔ جانے کیسےبنی مگر بن گئ ایک ہی وقت میں دو ملک الگ ہوئے ایک نے جمہوریت کی راہ اپنائی دوسرے نے فوجی آمریت کی ۔یہ کہانی فوجی ریاست کی کہانی ہے۔ ہوا یوں کہ اس ریاست میں مطلق العنان بادشاہت ایک بادشاہ کو ملی ۔ بادشاہ علامتی فوج کا یونیفارم پہن کر عوام پر حکمرانی کرتا پھرتا تھا۔اتنافوج کو پوجا جاتا تھا ۔فوج کے خلاف بات کرنا ممنوع ہوگیا۔ لوگ ڈر کر چھپ کر بھی فوج کے خلاف بات نہیں کرپاتے تھے
جگہ جگہ انکےفرضی کارناموں کی یادگاریں نصب کی گئیں۔ انکا بت بنا کر جگہ جگہ سجا دیا گیا۔ عوام پر فوج کی عزت کرنا فرض قرار دے دیا گیا۔ وردی والوں کو دیکھ کر یہ عوام مئودب ہوجاتے تھے۔ فوج نے بھی خوب خوب فائدہ اٹھایا اسی عوام کا خون نچوڑا ہر چیز پر غاصب ہوئے عوام کے خوف کا عالم یہ تھا کہ فوجی گاڑی دیکھ کر سلوٹ مارتے تھے
صبح صبح فوجی ترانہ بجتا اور عوام پر لازم تھا کہ باہر نکل کر سلامی پیش کریں۔ عوام پر ترقی و تمدن کے سب راستے بند تھے۔ اخبار ٹی وی سب سرکاری کنٹرول میں تھا۔ امریکہ سے نفرت اور جنگ سے محبت انکو سکھائی گئ تھی۔ حال یہ ہوا تھا کہ بھوکے مرتے تھے مگر امریکہ کو گالیاں دے کر برا بھلا کہہ کر اپنے محب وطن ہونے کا ثبوت دیتے۔ کچھ تنگ آکر ملک سے نکلنے کی کرتے۔ کچھ فوجی انکی مدد کرتے پیسے لیکر ملک سے باہر نکلوا دیتے تو کچھ غریبوں کو پکڑ کر فوج کا خوف بھی عوام پر طاری کیئے رکھتے۔ ان غریبوں کیلئے سخت قید ۔۔۔ جہاں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے ان پر۔ ملک میں انٹرنیٹ کے بھی تسلسل پر پابندی ۔ اس پر بھی فوج کے خلاف بات کرو تو پکڑ کر لے جاتے ۔ کسی پر شک بھی گزرتا کہ اس نے فوج کے خلاف بات کی اسکی زندگی برباد۔۔ ملک میں گیس نہیں بجلی کی کئی کئی گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ اور بلیک آئوٹ رہتا۔مگر فوج کے زیر انتظام عمارتوں اعلی افسران کے گھر دفتر ادارے مستثنی قرار ۔وہاں بجلی نہیں جایا کرتی۔۔ عوام ایسے ڈھیٹ ہیں کہ دنیا کی ڈپریس ترین قوم قرار دیئے جانے کے باوجود اس حکومت کے خلاف نہیں اٹھتے۔ نا بات کرتے ہیں۔ بلکہ یہ حکومت اسی ملک جس سے الگ ہو کر کئی دہائیاں بالواسطہ ان سے جنگیں لڑتے رہے اب معاہدے کر رہی ہے۔ دوستی کا ہاتھ بڑھا رہی ہے بلکہ اپنی خارجہ پالیسی ایک ہونے کا اعلان بھی کر چکی ہے۔اب وہ عوام جو کئی دہائیوں سے پڑوسیوں کو زبان ایک تہزیب و تمدن ایک ہونے کے باوجود دشمن سمجھتے رہے اب اپنے آپکو احمق سمجھتے ہیں اگر یہی سب کرنا تھا تو اتنے عرصے سے جنگ کریں گے کا الاپ کیوں الاپتے رہے۔ اس ملک کے عوام کو دنیا کہتی ہے شعور نہیں۔ شائد سچ کہتی ہے مگر جو قوم کئی دہائیوں سے پر تشدد طریقے سے دبائی جا رہی ہو اس کیلئے ایکدم سے فوج کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا آسان بھی تو نہیں ہے۔ کیا آپ کیلئے ہے؟؟؟ نہیں نا ۔۔ اچھا یہ کہانی کس ملک کی ہے کوئی اندازہ؟؟؟؟؟ جی؟؟ نہیں بھئی آپکا اندازہ غلط ہوا یہ کہانی ملتی جلتی سہی مگر دراصل شمالی کوریا کی ہے۔۔ مگر مجھے آپکا اندازہ بھی غلط نہیں لگا۔۔
aik aur raiyay by Nazia Zaidi sochna tu paryga #aikaurraiayay #Pakistanipolitics #think #syasat #parliment #IamPakistan #democracy #syasibatain #khabrain #tajziyay
ایک ہے فوجی ریاست۔ جانے کیسےبنی مگر بن گئ ایک ہی وقت میں دو ملک الگ ہوئے ایک نے جمہوریت کی راہ اپنائی دوسرے نے فوجی آمریت کی ۔یہ کہانی فوجی ریاست کی کہانی ہے۔ ہوا یوں کہ اس ریاست میں مطلق العنان بادشاہت ایک بادشاہ کو ملی ۔ بادشاہ علامتی فوج کا یونیفارم پہن کر عوام پر حکمرانی کرتا پھرتا تھا۔اتنافوج کو پوجا جاتا تھا ۔فوج کے خلاف بات کرنا ممنوع ہوگیا۔ لوگ ڈر کر چھپ کر بھی فوج کے خلاف بات نہیں کرپاتے تھے
جگہ جگہ انکےفرضی کارناموں کی یادگاریں نصب کی گئیں۔ انکا بت بنا کر جگہ جگہ سجا دیا گیا۔ عوام پر فوج کی عزت کرنا فرض قرار دے دیا گیا۔ وردی والوں کو دیکھ کر یہ عوام مئودب ہوجاتے تھے۔ فوج نے بھی خوب خوب فائدہ اٹھایا اسی عوام کا خون نچوڑا ہر چیز پر غاصب ہوئے عوام کے خوف کا عالم یہ تھا کہ فوجی گاڑی دیکھ کر سلوٹ مارتے تھے
صبح صبح فوجی ترانہ بجتا اور عوام پر لازم تھا کہ باہر نکل کر سلامی پیش کریں۔ عوام پر ترقی و تمدن کے سب راستے بند تھے۔ اخبار ٹی وی سب سرکاری کنٹرول میں تھا۔ امریکہ سے نفرت اور جنگ سے محبت انکو سکھائی گئ تھی۔ حال یہ ہوا تھا کہ بھوکے مرتے تھے مگر امریکہ کو گالیاں دے کر برا بھلا کہہ کر اپنے محب وطن ہونے کا ثبوت دیتے۔ کچھ تنگ آکر ملک سے نکلنے کی کرتے۔ کچھ فوجی انکی مدد کرتے پیسے لیکر ملک سے باہر نکلوا دیتے تو کچھ غریبوں کو پکڑ کر فوج کا خوف بھی عوام پر طاری کیئے رکھتے۔ ان غریبوں کیلئے سخت قید ۔۔۔ جہاں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے ان پر۔ ملک میں انٹرنیٹ کے بھی تسلسل پر پابندی ۔ اس پر بھی فوج کے خلاف بات کرو تو پکڑ کر لے جاتے ۔ کسی پر شک بھی گزرتا کہ اس نے فوج کے خلاف بات کی اسکی زندگی برباد۔۔ ملک میں گیس نہیں بجلی کی کئی کئی گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ اور بلیک آئوٹ رہتا۔مگر فوج کے زیر انتظام عمارتوں اعلی افسران کے گھر دفتر ادارے مستثنی قرار ۔وہاں بجلی نہیں جایا کرتی۔۔ عوام ایسے ڈھیٹ ہیں کہ دنیا کی ڈپریس ترین قوم قرار دیئے جانے کے باوجود اس حکومت کے خلاف نہیں اٹھتے۔ نا بات کرتے ہیں۔ بلکہ یہ حکومت اسی ملک جس سے الگ ہو کر کئی دہائیاں بالواسطہ ان سے جنگیں لڑتے رہے اب معاہدے کر رہی ہے۔ دوستی کا ہاتھ بڑھا رہی ہے بلکہ اپنی خارجہ پالیسی ایک ہونے کا اعلان بھی کر چکی ہے۔اب وہ عوام جو کئی دہائیوں سے پڑوسیوں کو زبان ایک تہزیب و تمدن ایک ہونے کے باوجود دشمن سمجھتے رہے اب اپنے آپکو احمق سمجھتے ہیں اگر یہی سب کرنا تھا تو اتنے عرصے سے جنگ کریں گے کا الاپ کیوں الاپتے رہے۔ اس ملک کے عوام کو دنیا کہتی ہے شعور نہیں۔ شائد سچ کہتی ہے مگر جو قوم کئی دہائیوں سے پر تشدد طریقے سے دبائی جا رہی ہو اس کیلئے ایکدم سے فوج کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا آسان بھی تو نہیں ہے۔ کیا آپ کیلئے ہے؟؟؟ نہیں نا ۔۔ اچھا یہ کہانی کس ملک کی ہے کوئی اندازہ؟؟؟؟؟ جی؟؟ نہیں بھئی آپکا اندازہ غلط ہوا یہ کہانی ملتی جلتی سہی مگر دراصل شمالی کوریا کی ہے۔۔ مگر مجھے آپکا اندازہ بھی غلط نہیں لگا۔۔
aik aur raiyay by Nazia Zaidi sochna tu paryga #aikaurraiayay #Pakistanipolitics #think #syasat #parliment #IamPakistan #democracy #syasibatain #khabrain #tajziyay
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں