وزیر اعظم خاموش۔۔۔۔

پرچی والا وزیر اعظم جو پرچی دیکھ کر بولتا ہے یہ الزام سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف پر اتنی تواتر سے لگا جوابا انہوں نے خاموشی اختیار کیئے رکھی۔ہر وقت ہر جگہ انکے اٹھنے بیٹھنے بولنے کا یوں حساب رکھا جاتا تھا جیسے سماجی روابط کی ویب گاہوں کو منکر نکیر کا عہدہ مل چکا ہے۔ مگر ایسا ہوتا کیوں تھا؟ جی جدید دور کے تقاضوں سے نپٹنے کیلیئے تحریک انصاف بنانے والوں نے اپنا الگ سوشل میڈیا ونگ بنایا تھا جس  میں انہوں نے سماجی روابط کی ویب گاہوں کو کو استعمال کرنے والوں کو اپنا ہتھیار بنانے کا سوچتے ہوئے دھڑا دھڑ تحریک انصاف کے حامی صفحات بنائے پروفائلز بنائے اور فیس بک پر اتنے مشہور ہوگئے کہ 2013 کے انتجابات میں یوں لگنے لگا کہ تحریک انصاف تین تہائی اکثریت لے جائے گی مگر ایسی اشتہاری مہمیں بنانے والے اور انکو دھڑا دھڑ لائکس دینے والے سب پورے پاکستان کا صرف اس 17 فیصد کا حصہ ہیں جو انٹرنیٹ اور اسمارٹ ڈیوائسز کو استعمال کرنے کے قابل ہے۔ان میں بھی اکثریت نوجوانوں کی رہی مگر پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کیلئے کوئی ڈاکٹرائن بناتے وقت یہ بات ذہن میں رکھنئ چاہیئے کہ آپ کسی ایک سطح پر توجہ دے کر انقلاب نہیں لا سکتے جبکہ وہ سطح عام آدمے کے استعمال میں بھی نہیں۔عوام کی نبض پر ہاتھ  سوشل میڈیا پر باتیں کرنے سے نہیں انکی روزمرہ کی سہولتوں کی دستیابی فراہمی کے ذریعے رکھا جا سکتا یے۔ باقی جگہوں پر سڑکیں بنانے والے مزدور ، پلوں کو بنتے دیکھنے والی عام عوام ، میٹرو بسز مین سفر کرنے والے چھوٹے موٹے لوگ ہیں جو جب لاہور پانی میں ڈوبتا یے تو گھٹنوں گھٹنوں پانی میں اپنے وزیر اعلی کو کھڑا دیکھتے تھے۔ سو انہوں نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا اور نتیجہ اس بڑی عظیم الشان دھرنہ کہانی کی بنیاد پڑی جس میں خان صاحب اپنی تمام تر زبان استعمال کرتے ہوئے بڑے بڑے سیاستدانوں کو برملا کچھ بھی الٹاسیدھا کہتے نظر آئے تو کبھی  بل جلانے جلائو گھیرائو کرنے جیسی اشتعال انگیز تقریریں  کرتے عوام کو اکساتے نظر آئے۔ جب عام عوام اپنے معتبر رہنما کو تیسرے درجے کی زبان استعمال کرتے دیکھے گی بزرگ، خواتین بچوں ہر کسی کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے ہوئے کبھی مریم نواز کو نانی ہونے پرطعنہ دیتے دیکھے تو کبھی بلاول بھٹو کی نقل اتارتے دیکھے گی تو 
اسکا ردعمل بھی اسی طرح آئے گا۔ وہ کہتے ہیں نا دوسروں کیلئے گڑھا کھودو تو انسان خود اس میں جا گرتا ہے
 تحریک انصاف نے جس بدتمیزی کی بنیاد رکھی ہر سیاسی مسلئے کو پراپیگنڈا کے ذریعے ابھارا،ہر کس و ناکس پر مزاحیہ خاکوں اور الٹے سیدھے عنوانات سے تصاویر لگا کر پھبتی کسی اب اسی کا شکار یہ خود ہو رہے ہیں۔اب جا بجا آپکو ایسے خاکے نظر آئیں گے جس میں وزیر اعظم عمران خان کو مزاحیہ کارٹوں میں منسلک کیا جا رہا ہے۔ عوام وہی ہیں بس اب انکو طریقہ یہ نیا معلوم ہواہے۔جہاں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف  کو ایک کارٹون 
کے ساتھ مستقل منسلک کرکے میمز بنائے جاتے تھے اب اسی طرح موجود وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ بھی منسلک کرکے میمز بن رہے ہیں۔اب اسکا حل کیا نکالیں ؟ چلو جی نیا قانون لاتے ہیں جس سے عوام کی حق آزادی رائے پر پابندی لگاتے ہیں۔انکو سماجی روابط کی ویب گاہوں  پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے پر جیل قید جرمانہ دینا ہوگا۔
یہ قانون لاتے وقت تحریک انصاف وہ وقت بھول گئ جب انکا طوفان بدتمیزی عروج پر تھا ملک کا نظام مفلوج کرنے کی کوشش میں کئی مہینے ناکام دھرنے دے کر بیٹھی تب ہمارا وزیر اعظم خاموش تھا۔ 
اتنا صبر اتنی خاموشی اور نپی تلی تقریر کرنے والے وزیر اعظم کے کام آج تک بول رہے ہیں۔ چاہے وہ میٹرو کی صورت ہو یا موٹر ویز کی صورت ، بجلی کی تواتر سے فراہمی کی صورت ہو یا گیس کے بحران سے نمٹنے کی صورت ، ایک تقریر عالمی عدالت میں سابق وزیر اعظم نے بھی کی تھی جس میں جرائت کا عظیم الشان مظاہرہ برہان وانی کو شہید اور حق پر قرار دینے کا تھا مگر ہوائیں مخالف رہیں یہ سب کرنے والا چونکہ خاموش تھا ۔ہاں اسکے بعد موجودہ وزیر اعظم نے تقریر کی متن کسی تحریک انصاف والے سے پوچھ کر دیکھیں فر فر سنا دے گا مگر ہمارے حالات اب چیخ چیخ کر کوئی اور کہانی سنا رہے ہیں۔
ہمارا کشمیر ہم سے چھینا جا چکا ہے، ہماری معیشت تباہ ہو چکی ہے ہم آئی ایم ایف کے قرضے میں بال بال جکڑے جا چکے ہیں ، ہمارے بچوں کی تعلیم پر ہونے والا بجٹ کٹتا چلا جا رہا ہے کرونا جیسی عالمی وباء میں جب سب کام آن لائن کیئے جا رہے ہین چاہے کاروبار ہو یا تعلیم ہمارے یہاں انٹرنیٹ کے استعمال پر ٹیکس بڑھایا گیا ہے، ہمارے بچوں کو سکول نصیب نہیں تو کم ازکم انکی تعلیمی سلسلےکو جاری رکھنے کیلئے الیکٹرانک ڈیواسز ٹیبلٹ موبائل فون پر سبسڈی دی جاتی الٹا ان پر بھی مزید ٹیکس لگ چکا ہے، صحت کا بجٹ کم ہوچکا ہے واحد جو بجٹ بڑھا ہے وہ دفاعی ہے۔ ہمارے یہاں لوگوں کو عام علاج معالجہ میسر نہیں ویکسین لگوانے کیلئے کوئی مہم کوئی نئی سہولت جس سے عوام کو راغب کیا جاسکے یا کرونا ویکسین لگوانے جو عوام قطار باندھے دھوپ میں کھڑے ہیں انکا دفاع ویکیسین سے قبل کرونا سے کیسے کیوں کر ہوگا؟؟؟ جب آپ صحت کا بجٹ مزید کم کر دیں گے؟کب تک ہمارے حکمران اپنی ناکام پالیسیوں کا دفاع کریں گے یہ کہہ کر کہ سب سابقہ حکومتوں کی وجہ سے ہورہا ہے؟   اب 
ہم نے دفاع کہاں کیا کرنا ہے ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے۔ 
اور ہاں۔ 
سابقہ وزیر اعظم کے منہ سے ہم نے یہ توجیہہ نہیں سنی کہ چونکہ پچھلی حکومت بیڑا غرق کرچکی ہے سو ہم بھی ڈوبیں گے ہاتھ پائوں نہیں ماریں گے۔ وہ خاموشی سے اپنا کام کرتے رہے ۔۔ ہمیں بھی اب خاموش وزیر اعظم چاہیئے باتیں بہت ہو گئیں عمران خان صاحب


aik aur raiyay by Nazia Zaidi

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

Quaid e azam ke 14 nakat pehla nukta

احمقوں کا ریوڑ Bewildered Herd and modern era

ففتھ جنریشن وار اور ہم