کرونا اور بھارت
کرونا جب سے آیا ہے لا تعداد نظریات بھی ساتھ ساتھ آتے گئے شروعات چین کے شہر ووہان سے ہوئی تو پہلا نظریہ یہی سننے میں آیا کہ کسی لیبارٹری سے یہ وائرس پھیل گیا جس کے جواب میں چین کی جانب سے امریکی فوجیوں پر الزام لگایا گیا یہ وائرس انکے فوجی اس ملک میں لیکر آئے منصوبے کے تحت۔ چین نے ایسی کئی ویڈیوز بھی شائع کیں جس میں لوگ شاپنگ کارٹ سے لیکر سیڑھیوں کی ریلنگ اور بڑے اسٹورز میں شیلف میں رکھی پیک شدہ مصنوعات کی پیکنگ چاٹتے نظر آئے جسکا بظاہراسکے سوا کوئی مقصد نظر نہیں آتا کہ وہ خود اپنے اندر موجود جراثیم کو دنیا کی سیر کروانا چاہ رہے ہیں۔ ابھی سب نزلہ بخار سانس اکھڑنے جیسی ٹی بی کی علامات سے گزر رہے تھے کہ ہلاکتیں شروع ہوگئیں تو ایک نیا نظریہ پیش کیا گیا جس کے مطابق یہ دراصل کوئی وائرس ہے ہی نہیں یہ تو تابکاری شعاعیں ہیں جو فائیو جی کی ٹیکنالوجی کی وجہ سے فضا میں پھیل رہی ہیں۔ فائیو جی دماغ کھول دینے والی ٹیکنالوجی ہے جس کے تحت انٹرنیٹ ایک بلا بن جائے گا۔ ابھی فور جی ٹیکنالوجی میں ہی ہم انٹرنیٹ کی تیز ترین رفتار سے محظوظ ہوتے ہیں فائیو جی اس سے بھی تیز رفتار ہوگا جسکی بدولت معلومات کی ایک دنیا کے کونے سے دوسری دنیا کے کونے تک پہنچنا پلک جھپکنے جتنا دور رہ جائے گا۔ابھی دنیا سمٹ کر گلوبل ولیج بن چکی ہے اب اس سے آگے مزید تیز رفتار ہو جائے تو دنیا کے لیئے سربستہ رازوں تک پہنچنا کتنا آسان ہو جائے گا تصور کیا جاسکتا ہے۔
چار جی تک ایک امریکی ادارے کی تحقیق کے مطابق اس کی تابکاری سے شہد کی مکھیاں راستہ بھول رہی ہیں جسکے باعث یہشہد ہزار سال تک دنیا سے ڈائنا سورز کی مانند غائب ہو جائے گا۔ یعنی اس سے ایک مرحلہ آگے کی ٹیکنالوجی آنے کا مطلب ہے یہ وقت بھی کم رہ جائے گا۔ قیامت کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ دنیا سے نعمتیں اٹھا لی جائیں گی سب سے پہلے شہد وہ نعمت ہے جو دنیا سے ناپید ہو جائے گا۔
یہ سب باتیں وقوع ہوتے دیکھ کر یقین راسخ ہوتا جاتا ہے کہ قیامت بہت قریب ہے ہمارے یقینا یہ وقت اپنے اپنے اعمال پر نگاہ دوڑانے کا ہے۔جبکہ اسکے برعکس آپکو سب ایک دوسرے کو انکے بد اعمال جتاتے نظر آتے ہیں۔پورا انٹرنیٹ جب بھارت میں کرونا کی تباہیوں سے ہونے والی عبرتناک ہلاکتوں پر اظہار افسوس کر رہا تھا تب پاکستانی اس سب معاملے کو کشمیر سے جوڑ کر اسے بھارت کیلئے قدرت کی سزا کہہ کر مضحکہ اڑا رہے تھے۔ اگریہ قدرت کی سزا ہے تو ہمارے بد اعمال بھی کچھ کم نہیں۔خوف کھائیں کہ کب ہماری پکڑ ہو جائے۔۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں