کرونا خود سب کروناcorona khud sab karona
وہ ایک لطیفہ مشہور ہے سنا ہوگا آپ نے ایک بچے مائی بیسٹ فرینڈ مضمون یاد تھا اسے گائے پر بھی مضمون لکھنے کو کہا جائے تو یوں لکھتا کہ گائے ایک مفید جانور ہے۔ اسکے چار پیر اور دو کان ہوتے ہیں میں نے پہلی بار اسے اپنے دوست علی کے گھر بندھا دیکھا تھا۔ علی میرا سب سے اچھا دوست ہے ہم ایک جماعت میں زیر تعلیم ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب مجھے یہ لطیفہ کیونکر یاد آیا یہ فیصلہ آپ کیجئے۔ پچھلئ دو برس اس قوم پر ایسے سخت گزرے ہیں کہ اگر یہ کسی اور قوم پر گزرے ہوتے تو بیدار ہوجاتی مگر یہ کچھ ایسی ڈھیٹ ہوچکی ہے کہ ماشا اللہ سے ابھی بھی جیئے جا رہی ہے۔ مہنگائی سے کمر تڑوا کر جب آنتیں قل ھواللہ پڑھنے کو تھیں تو کرونا آگیا۔ لاک ڈائون ہوگیا۔ بھوکے مرتے لوگوں کو دو مہینے میں مرجانا چاہیئے تھا مگر زندہ ہیں ۔۔ بقول ضمیر جعفری کے آئے ہائے زندہ ہیں۔۔۔ چلتی پھرتی میتیں ہیں۔ ان چلتی پھرتی میتوں کو زندہ دیکھنے کے شوقین دردمند دل رکھنے والے ہمارے وزیر اعظم لاک ڈائون میں نرمی کرکے عوام کو خود اپنا خیال رکھنے کا کہہ کر بری الذمہ ہوگئے۔یہ چلتی پھرتی میتیں سیدھا گھسیں بڑے بڑے مالز میں بازاروں میں کی دھڑا دھڑ عید کی تیاری۔ اورآگے بھی لاک ڈائون میں نرمی کے باعث انشا اللہ کرتی رہیں گی۔ تاجر خوش وزیر اعظم اور انکے حواری خوش اپوزیشن سخت ناخوش اور اسی بچے کی طرح ہر مضمون میں بیسٹ فریںڈ کا مضمون گھسیڑ کر۔۔نہیں حکومت تو یہ راگ الاپتی ہے ہم پچھلی حکومتوں کا کچھ نہ کرنا بھگت رہے۔ اب مسلئہ یہ ہے کہ عوام کہاں جائیں کس دیوار میں سر ماریں۔ بھئ کرونا ہمارا مسلئہ ہے ہمیں خود اس سے نمٹنا ہے اگر ماسک پہن کر گھومیں گے تو سچ مچ میتیں بننے سے بچ جائیں گے یہ ادراک عوام کو راتوں رات اچانک کیسے ہو جائے گا؟کیا یہ حکومت کا کام نہیں ہوتا کوئی پالیسی بنا کر اس پر عمل درآمد کروائے۔ یہ لمبی چوڑی کابینہ کس مرض کی دوا ہے۔ الٹا پارلیمان کا اجلاس جھگڑے میں گزر گیا۔ جب ڈینگی آیا تھا تو کیا پچھلی حکومت نے کوئی پالیسی نہیں بنائی تھی؟ وہ وبا جس سے ہزاروں جانیں ضائع ہونے کا خدشہ تھا بروقت اقدامات کے ذریعے اسکو پھیلنے سے روک دیا گیا تھاگھر گھرجانے والی ٹیمیں تشکیل دی گئیں جنکا کام لوگوں کو ممکنہ خطرے سے بچنے کے طریقے بتانا اور گھر میں ڈینگی کے خاتمے کیلئے اسپرے کرنا تھا پمفلٹ بانٹے گئے اشتہاروں کی مدد لی گئ جگہ بے جگہ کھڑے پانی کے گڑھوں کو بند کیا گیا اسپتالوں میں ڈینگی کے مریضوں کے علاج کو ممکن بنایا گیا اس سب کے لیئے دوسرے ممالک سے ماہرین کی مدد لی گئ بنا کوئی فنڈ لیئے۔ ایک طویل فہرست ہے ۔کیا نئی حکومت کے نویلے حکمران خود سے کوئی پالیسی نہیں بھی بنا سکتے تو کیا پرانی حکومت کی مدد نہیں لی جاسکتی۔کیا ایک فرد کی انا اس قوم کے لاکھوں معصوم لوگوں کی جانوں سے ذیادہ عزیز ہے۔ اب آرمی چیف تشویش کا اظہار کیوں نہیں کرتے کہ ملک میں یہ وبا کیوں پھیلتی جارہی ہے؟ کیوں ڈیفنس کالونیاں مکمل بند ہیں نہ کوئی آ سکتا ہے باہر نہ اندر جاسکتا ہے۔ اگر لاک ڈائون میں نرمی کرکے عوام کو انکے حال پر چھوڑا جا سکتا ہے آرمی میس ، کالونیوں میں رہنے والے دو ہاتھ دو پائوں والے انسانوں کو کس جرم کی سزا میں بند کر رکھا یے۔ انکو بھی کھولیئےاوپر سے آرمی پبلک اسکول اور کالج آن لائن نظام تعلیم سے تعلیم دے رہے ہیں؟ کیا وہاں پڑھنے والے بچوں کو انٹرنیٹ کی سہولتیں میسر ہیں؟ چلیں چھوڑیں مسلئہ دراصل یہ ہے کہ ان کالونیوں میں بند لوگوں کے رشتے دار انکی جانب سے فکر مند ہیں اور وہ تو ہیں بھی عام عوام اندر جا کر نہیں مل سکتے تو کم از کم ان لوگوں کا لاک ڈائون ختم کرکے انکو بھی باہر آنے کی اجازت دے دیں ۔۔ وہ بھی انسان ہیں عید کرنے کا انکا بھی دل کرتا ہوگا۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں