Online classes and Pakistanis
پورے پاکستان میں تمام تعلیمی ادارے بند ہیں اور نا معلوم مدت کیلئے جس طرح کرونا وائرس کا خطرہ منڈلا رہا ہے اس صورت میں تعلیمی اداروں کا جلد معمول کے مطابق کھل جانا بھی فی الحال دشوار نظر آتا ہے ۔ ایچ ای سی نے بچوں کے مستقبل کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام جامعات کو آن لائن نظام لانے کی ہدایت جاری کی ہے تاکہ بچوں کا تعلیم کا حرج نہ ہو۔بظاہر اس میں کوئی حرج نظر نہیں آتا اور ایک احسن قدم نظر آتاہے چین نے جب ووہان میں لاک ڈائون کیا اور مکمل طور پر شہر بند کیاگیا تب وہاں بچوں کا تعلیمی سلسلہ آن لائن تدریس کے ذریعے جاری رکھا گیاصرف جامعات نہیں بچوں کے مکتب بھی اس سلسلے کا حصہ بنے۔ ایسا دیگر ترقی یافتہ ممالک میں بھی ہو ا ہو سکتاہے مگر پاکستان میں ایسا نظام لانا اور تمام طلبا کو اس پر اکٹھا کرنا آسان نہیں۔ پاکستان میں انٹر نیٹ پوری آبادی کا 22 فیصد بمشکل استعمال کرتاہے۔ اس استعمال میں تمام طرح کی انٹرنیٹ سروسز استعمال کرنے والے شامل ہیں۔ جبکہ پاکستان میں موبائل انٹرنیٹ استعمال کرنےوالے ذیادہ تر کم ڈیٹا پیکج والے واٹس ایپ اونلی پیکجز استعمال کرنے والے ہیں۔
دیگر میں انٹرنیٹ سروسز پرووائڈرز صرف بڑے شہروں میں دستیاب ہیں۔ جن میں نمایاں پی ٹی سی ایل ہے جس کی سروسز اسکے بے حد استعمال کی وجہ سے اکثر سست رہتی ہیں۔ پھر موبائل انٹرنیٹ استعمال کرنے والے اکثر کوریج نہ ہونے کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔ اب آن لائن کلاسز میں جب آپ ایک کثیرتعداد میں طلبا کو ایک مخصوص وقت میں آن لائن لانا چاہیں تواسکے لیئے نیا نظام لانا آسان نہیں جامعات کیلئے اور گوگل کلاسروم اور دیگر سروسز جو بہت بھاری ایپس سمجھی جاتی ہیں مستقل ربط کیلئے ڈیٹا استعمال ذیادہ کرتی ہیں ان والدین پر بوجھ ڈالنا ہے جو کسی طرح اپنے پیٹ کاٹ کر بچوں کی بھاری فیسیں جامعات میں جمع کروا چکے ہیں۔ اب وہ بچوں کو مہنگے انٹر نیٹ پیکج بھی لگوا کر دیں ؟۔ پھر جو طلبا دوردراز علاقوں یا دیہی پس منظر رکھتے ہیں انکا کیا؟
آن لائن جامعات جیسےورچوئل یونیورسٹی یے انکا ایک مکمل علیحدہ نظام ہے انکے بچوں کو گریڈ دینے امتحان دینے کا بالکل مختلف نظام ہے جس سے جو بچے مستفیدہوتے ہیں وہ ذہن بنا چکے ہوتے ہیں عادی ہوتے ہیں۔ اب دو تین سمسٹر یونیورسٹی میں ایک بالکل الگ نظام سے پڑھتے بچوں کو آنلائن کلاسز کا لالی پاپ دینا سراسر انکے ساتھ ذیادتی ہے۔ خدارا بچوں کے مستقبل سے مت کھیلیں۔اگر آن لائن کلاسز مسائل کا حل ہوتیں تو دنیا میں صرف آن لائن جامعات کام کیا کرتیں باقی جامعات کو تالا لگ چکا ہوتا۔اگر ہاورڈ وغیرہ بند ہو سکتی ہیں اگر انکے سمسٹرز کے داخلے آگے بڑھائے جا سکتے وقت دیا جا سکتاہے تو پاکستان جیسے غریب ملک جس کی نصف آبادی تک انٹرنیٹ استعمال نہیں کرتی اسکے طلبا کہاں جائیں؟ان پر یہ تلوار کیوں؟
بھاری فیسیں دینے کے بعد والدین سے وبا کےدور میں جب کاروبار بند ہیں روز کے کھانے پینے کی اشیاءاور استعمال کی دیگر اشیاء کی کمی قحط پڑنے کے خوف کے ساتھ وہ پیٹ کاٹ کر بچوں کیلئے انٹر نیٹ سروسز خریدیں؟ جب دکانیں بند ہیں کاروبار بند ہیں انٹر نیٹ سروسز کابل سوائے اضافی بوجھ کے اور کچھ نہیں۔ ہمیں یہ ماننے میں کوئی عار نہیں ہم غریب ملک کے غریب شہری ہیں۔ ہمارے یہاں تھری جی اور فورجی صرف امیروں کو میسر ہےوہ بھی لاک ڈائون کے درمیان انکے کارڈز ریچارج کرنے اور بل جمع کروانے کیلئے پریشان ہیں۔ہم غریب ملک کے باسی ہیں۔ جہاں بنیادی سہولیات میسر نہیں عوام کو انٹرنیٹ دور کی بات۔ ہمارا وزیراعظم لاک ڈائون کے بھیانک مستقبل پر جب روشنی ڈالتا ہےتو والدین اپنے بچوں کی فکر کرتے ہوئے انکے لیئے اگلے کئی دنوں کاراشن کا انتظام کرنے کا سوچتے ہیں انٹر نیٹ لگوا کر دینے کا نہیں۔
اب ذرا ان مسائل کی بھی بات کریں جو ان ترقی یافتہ ممالک میں پیش نہیں آتے۔ چین تک میں ایک حد سے حد دو بچے ہیں والدین دونوں کام کرتے ہیں ۔ بچوں کو گھر میں ایک ماحول میسر ہوتاہے جس میں وہ ایک مخصوص وقت میں بیٹھ کر سکون سےپڑھ سکتے ہیں۔پاکستان میں جہاں مشترکہ خاندانی نظام ہےکم از کم بھی دو اور زیادہ سے زیادہ درجن بہن بھائی ہیں ساتھ والدین کے ساتھ والدین کے بھائی بہن انکے والدین رہتے گھر بھی اوسطا اتنے ہی بڑے کہ جن میں کم از کم بھی آپ اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ کمرہ شیئر کرتے ہیں وہاں اپنےدو درجن کلاس فیلوز کے ساتھ جب آن لائن کلاس کے دوران اگر گھر میں کوئی کھٹ پٹ ہو جائے تو یقینا وہ طالب علم/طالبہ اپنے جی پی اےپر لعنت بھیج کر لاگ آئوٹ میں ہی اپنی عافیت سمجھے گا/گی اور طلبا کو دہی لانے اور طالبات کوچائے بنانے کا حکم بھی مل سکتا ہے۔جسکی تعمیل کیئے بنا چارہ نہیں ہونا۔
دیگر میں انٹرنیٹ سروسز پرووائڈرز صرف بڑے شہروں میں دستیاب ہیں۔ جن میں نمایاں پی ٹی سی ایل ہے جس کی سروسز اسکے بے حد استعمال کی وجہ سے اکثر سست رہتی ہیں۔ پھر موبائل انٹرنیٹ استعمال کرنے والے اکثر کوریج نہ ہونے کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔ اب آن لائن کلاسز میں جب آپ ایک کثیرتعداد میں طلبا کو ایک مخصوص وقت میں آن لائن لانا چاہیں تواسکے لیئے نیا نظام لانا آسان نہیں جامعات کیلئے اور گوگل کلاسروم اور دیگر سروسز جو بہت بھاری ایپس سمجھی جاتی ہیں مستقل ربط کیلئے ڈیٹا استعمال ذیادہ کرتی ہیں ان والدین پر بوجھ ڈالنا ہے جو کسی طرح اپنے پیٹ کاٹ کر بچوں کی بھاری فیسیں جامعات میں جمع کروا چکے ہیں۔ اب وہ بچوں کو مہنگے انٹر نیٹ پیکج بھی لگوا کر دیں ؟۔ پھر جو طلبا دوردراز علاقوں یا دیہی پس منظر رکھتے ہیں انکا کیا؟
آن لائن جامعات جیسےورچوئل یونیورسٹی یے انکا ایک مکمل علیحدہ نظام ہے انکے بچوں کو گریڈ دینے امتحان دینے کا بالکل مختلف نظام ہے جس سے جو بچے مستفیدہوتے ہیں وہ ذہن بنا چکے ہوتے ہیں عادی ہوتے ہیں۔ اب دو تین سمسٹر یونیورسٹی میں ایک بالکل الگ نظام سے پڑھتے بچوں کو آنلائن کلاسز کا لالی پاپ دینا سراسر انکے ساتھ ذیادتی ہے۔ خدارا بچوں کے مستقبل سے مت کھیلیں۔اگر آن لائن کلاسز مسائل کا حل ہوتیں تو دنیا میں صرف آن لائن جامعات کام کیا کرتیں باقی جامعات کو تالا لگ چکا ہوتا۔اگر ہاورڈ وغیرہ بند ہو سکتی ہیں اگر انکے سمسٹرز کے داخلے آگے بڑھائے جا سکتے وقت دیا جا سکتاہے تو پاکستان جیسے غریب ملک جس کی نصف آبادی تک انٹرنیٹ استعمال نہیں کرتی اسکے طلبا کہاں جائیں؟ان پر یہ تلوار کیوں؟
بھاری فیسیں دینے کے بعد والدین سے وبا کےدور میں جب کاروبار بند ہیں روز کے کھانے پینے کی اشیاءاور استعمال کی دیگر اشیاء کی کمی قحط پڑنے کے خوف کے ساتھ وہ پیٹ کاٹ کر بچوں کیلئے انٹر نیٹ سروسز خریدیں؟ جب دکانیں بند ہیں کاروبار بند ہیں انٹر نیٹ سروسز کابل سوائے اضافی بوجھ کے اور کچھ نہیں۔ ہمیں یہ ماننے میں کوئی عار نہیں ہم غریب ملک کے غریب شہری ہیں۔ ہمارے یہاں تھری جی اور فورجی صرف امیروں کو میسر ہےوہ بھی لاک ڈائون کے درمیان انکے کارڈز ریچارج کرنے اور بل جمع کروانے کیلئے پریشان ہیں۔ہم غریب ملک کے باسی ہیں۔ جہاں بنیادی سہولیات میسر نہیں عوام کو انٹرنیٹ دور کی بات۔ ہمارا وزیراعظم لاک ڈائون کے بھیانک مستقبل پر جب روشنی ڈالتا ہےتو والدین اپنے بچوں کی فکر کرتے ہوئے انکے لیئے اگلے کئی دنوں کاراشن کا انتظام کرنے کا سوچتے ہیں انٹر نیٹ لگوا کر دینے کا نہیں۔
اب ذرا ان مسائل کی بھی بات کریں جو ان ترقی یافتہ ممالک میں پیش نہیں آتے۔ چین تک میں ایک حد سے حد دو بچے ہیں والدین دونوں کام کرتے ہیں ۔ بچوں کو گھر میں ایک ماحول میسر ہوتاہے جس میں وہ ایک مخصوص وقت میں بیٹھ کر سکون سےپڑھ سکتے ہیں۔پاکستان میں جہاں مشترکہ خاندانی نظام ہےکم از کم بھی دو اور زیادہ سے زیادہ درجن بہن بھائی ہیں ساتھ والدین کے ساتھ والدین کے بھائی بہن انکے والدین رہتے گھر بھی اوسطا اتنے ہی بڑے کہ جن میں کم از کم بھی آپ اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ کمرہ شیئر کرتے ہیں وہاں اپنےدو درجن کلاس فیلوز کے ساتھ جب آن لائن کلاس کے دوران اگر گھر میں کوئی کھٹ پٹ ہو جائے تو یقینا وہ طالب علم/طالبہ اپنے جی پی اےپر لعنت بھیج کر لاگ آئوٹ میں ہی اپنی عافیت سمجھے گا/گی اور طلبا کو دہی لانے اور طالبات کوچائے بنانے کا حکم بھی مل سکتا ہے۔جسکی تعمیل کیئے بنا چارہ نہیں ہونا۔
aik aur raiyay by Nazia Zaidi sochna tu paryga #aikaurraiayay #Pakistanipolitics #think #syasat #parliment #IamPakistan #democracy #syasibatainrain #tajziyay #pakistan #lahore #karachi #islamabad #india #pakistani #love #instagram #fashion #photography #imrankhan #urdu #follow #urdupoetry #instagood #pakistanistreetstyle #punjab #kashmir #peshawar #poetry #nature #islam #pakistanzindabad #like #dubai #rawalpindi #tiktok #pakistanifashion #bollywood #bhfyp
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں