Review of saleem safi s column


میرا آجکا کالم ہے سلیم صافی کا۔دو نہیں ایک پاکستان۔۔جو
پندرہ ستمبر دو ہزار اٹھارہ کو جنگ اخبار کی زینت بنا ۔۔
 سلیم صافی پچھلے پانچ سال سے حکومت پر کڑی اور شدید تنقید کر رہے ہیں ۔ اور ابھی بھی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس تنقید پر اب انہیں شدید ردعمل کا سامنا ہے سوشل میڈیا پر فحش زبان انکے خلاف استعمال کی جا رہی ہے انکو لفافہ صحافی کہا جا رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ کیوں؟ 
یہ کالم اسی وجہ کے بارے میں ہے۔۔ 
اس کالم میں بھی سلیم صافی نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے حکومت کو۔ شروعات ہوتی ہیں اس کالم کی سابق آمر جنرل مشرف کے زکر سے ۔ مشرف عدلیہ اور عدالتی نظام سے چھیڑ چھاڑ کی وجہ سے سابق جنرلوں کی نسبت زیادہ مشہور رہے ہیں۔
عدلیہ بحالی تحریک کے بعد جب عدلیہ آزاد سمجھی جانے لگی تھی اوریوں لگتا تھا کہ مشرف بھی طاقتور عدلیہ کے سامنے پانی بھرتے نظر آئیں گے مگر ہوا برعکس سابقہ حکومت نے جب مشرف کے خلاف مقدمے درج کروائے تو اسے دھرنوں اور لاک ڈائون کا سامنا کرنا پڑا۔۔ اس بات میں کتنی سچائی ہے کہ دھرنوں کا ایک مقصد یہ بھی رہا تھا اس کیلئے کامران شاہد مشہور اینکر کے پروگرام کا ایک اقتباس زیل ہے جو سلیم صافی کی اس بات کو  سچ ثابت کرتا دکھائی دیتا ہے۔۔ 
مشرف : ہاں آرمی چیف نے حکومت پر شدید دبائو ڈال کر مجھے باہر بھجوایا۔۔کیسے نا مانتا میری میں باس تھا راحیل شریف کا۔۔ 
ایک سابق آمر جس نے آئین و قانون کی دھجیاں بکھیریں وہ کس ڈھٹائی سے نیشنل ٹی وی پر ریٹائر ہو چکنے کے باوجود حاضر سروس  آرمی چیف کو کہہ رہا ہے کہ میں اسکا باس تھا۔۔۔ تھا۔۔۔۔۔۔ 
موجودہ حکومت کے پیچھے آگے یا دائیں بائیں غیر جمہوری طاقتیں ہیں اس کو بھی اس کالم میں طنز  یہ کہا گیا کہ 
* جنرل صاحب کا تازہ کمال دیکھ لیجئے کہ خود الیکشن میں حصہ لیا اور نہ انکی پارٹی کوئی سیٹ جیت سکی لیکن ان ہی کی ٹیم حکمران بن گئ۔۔ شیخ رشید انکی حکومت میں وزیر ریلوے تھے۔اور اب دوبارہ اسی محکمے کے وزیر بن گئے ۔جہانگیر ترین انکی حکومت میں وزیر تھے جبکہ اب وزراء گورنروں اور وزرائے اعلی کا تقرر کرتے ہیں ۔فواد چوہدری جنرل مشرف کے ترجمان تھے اب حکومت کے ترجمان ہیں۔شفقت محمود انکی حکومت میں معمولی وزیر تھے اور اب ترقی کرکے وفاقی وزیر بن گئے۔ خسرو بختیار انکی حکومت میں وزیر تھے اور اب ترقی کرکے وفاقی وزیر بن گئے۔ علیم خان انکی ٹیم کے ادنی ممبر تھے اور اب پورے پنجاب کے مختار بن گئے۔ چوہدری پرویز الہی انکے دست راست تھے اب عمران خان نیازی کی ٹیم کے اہم کھلاڑی ۔ فروغ نسیم غداری کیس میں انکے وکیل ہیں اور اب وفاقی وزیر قانون * 
زبیدہ جلال مشرف دور میں پورے بلوچستان میں وزارت کیلئے مشرف نے منتخب کیں اب پھر وفاقی وزیر ۔ عامر کیانی مشرف کی ٹیم کے معمولی کارندے اب وزیر مملکت۔ مرزا شہزاد اکبر مشرف دور میں قومی احتساب بیورو کے پراسیکیوٹر تھے اب پوعے احستابی عمل کے انچارج۔ 
گویا مشرف کی پوری ٹیم ایک نئی شکل میں مقتدر بن گئ ہے موجودہ پی ٹی آئی سابقہ ق لیگ۔۔جڑوں بہنیں ہیں ۔ نئے حکمرانوں کو بھی خارجہ پالیسی ، داخلی سلامتی اور سول ملٹری تعلقات جیسے اہم ترین مسائل پر اختیار نہیں دیا جا رہا۔ 
اس بات سے مجھے اتفاق یوں ہے کہ پوری کابینہ جی ایچ کیو میں ایک میٹنگ کا حصہ تھی ۔ اسکی تصاویر سوشل میڈیا پر ہیں جن میں وفاقی وزراء شدید مایوس اور پریشان نظر آئے۔ ویسے جمہوری حکومتوں میں کابینہ چاہے تو آرمی چیف کو طلب کر کے اس سے ملاقات کرتی ہے نیز آرمی چیف پابند ہوتا ہے اپنے سے نیچے سب اہم جنرلوں وغیرہ کو حکم دے کر حکومتی احکامات بجا لانے کا۔ ۔جی ایچ کیو میں کابینہ کی طلبی تمسخر ہے جمہوریت کا۔۔ 
مزید سلیم صافی نے سابقہ کے پی حکومت کی کارکردگی پر نظر ڈالی ہے۔ جس میں بڑی تفصیل سے پی ٹی آئی کے بنائے احتساب کمیشن جسکا آپکو اکثرزکر سننے میں آیا ہوگا کے کیئے گئے کاموں پر روشنی ڈالی۔ جیسے کہ اسکے سربراہ عمران خان کے دیرینہ دوست حامد خان صاحب تھے۔ اس کمیشن میں سابق جنرلوں کو اہم عہدے دئیے گئے۔ جب حامد خان صاحب نے پی ٹی آئی کے کچھ وزراء کا احستاب کرنا چاہا تو اس کمیشن کے اختیارات محدود کیئے گئے۔ انکو مستعفی کیا گیا مزید صوبائی وزیر شاہ فرمان کے عزیز قائم مقام ڈی جی رہے۔ پانچ سال بعد یہ کمیشن ختم کیا جا رہا ہے۔ نہ کسی کا احتساب ہوا بلکہ اس کمیشن پر 86 کروڑ روپے سرکاری خزانے سے خرچ ہوئے اور اس کمیشن نے بارہ لاکھ وصولی کی ہے۔ 
یہ سن پڑھ کر دماغ گھوم جاتا ہے مگر یہیں پر بس نہیں۔ پرویز خٹک نے اعلان کیا تھا وہ وزیر اعلی ہائوس میں نہیں رہیں گے ۔ وہ آٹھ دس دن اپنے گھر  پھر وزیر اعلی ہائوس کی انیکسی پھر وزیر اعلی ہائوس میں ہی رہے۔ کے پی ہائوس نتھیا گلی ماضی کی تمام حکومتوں سے زیادہ انکے دور میں استعمال ہوا۔۔ 
جاوید چوہدری اپنے پروگرام میں عمران خان کے اپنے دوستوں کے ہمراہ نتھیا گلی جانے اور جا رہنے پر کڑی تنقید کر چکے ہیں جس سے سلیم صافی کی اس بات کی بھی تصدیق ہوتی ہے۔
مزید پروپیگنڈا مہم جو پی ٹی آئی کی جانب سے چلائی جارہی ہے آجکل اس پر بھی انہوں نےتنقید کی ہے۔ وزیر اعظم کے بارے میں کہ وہ وزیر اعظم ہائوس نہیں رہیں گے وہ رہ رہے ہیں۔ باقی اخراجات بھی ویسے ہی ہو رہے ہیں۔ وزیر اعظم ملٹری سیکٹری کے گھر کو استعمال کر رہے ہیں ملٹری سیکٹری پرنسپل سیکٹری کے گھر جبکہ پرنسپل سیکٹری نے باہر اپنے لیئے گھر لیا ہے۔
وزیر اعظم کے ہیلی کاپٹر کے بے جا استعمال بلکہ اپنے پالتو کتے کو بھی اس میں سیر کرانے پر اعتراض کیا جو مجھے ٹھیک ہی لگا۔
سلیم صافی نے اپنے کالم میں جا بجا نئی حکومت کے تبدیلی کے نعروں سے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ سلیم صافی سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی حلقوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ فحش گالیاں تک سن رہے ہیں۔ جو کسی طور صحتمندانہ رویہ نہیں ہے۔ سلیم صافی ایک زمہ دار صحافی ہیں انہوں نے جو جو بات اس کالم میں کہی ہے وہ بات درست نظر آتی ہے۔ انہوں نے کے پی کے گورنمنٹ کے چائے پانی کا خرچہ جو کروڑوں میں تھا انہوں نے وفاق سے وصولا تھا اسکی دستاویزات کے ساتھ پروگرام میں بات کی تھی۔ پھر وزیر اعظم کے ہیلی کاپٹر کے بے جا استعمال کی بات بھی غلط نہیں نیز انہوں نے جو جو مشرف دور کے وزراء گنوائے وہ کیسے اور کیونکر نئے لوگ ہو سکتے یا تبدیلی لا سکتے جو خود چور راستے سے اقتدار میں آنے والے مشرف کے ساتھی رہے۔ زبیدہ جلال پر پلاننگ اور ڈویلوپمنٹ
کے ادارے میں کروڑوں کی کرپشن کے الزامات ہیں۔ کیا ہم امید کریں کہ پوری قوم کو احتساب کا پیسہ وصولنے کا دعوی کرنے والے  نیازی صاحب سب سے پہلے اپنے وزراء کا احتساب کریں گے۔ حکومت کو دو وقت دیا جائے یہ درخواست کرنے والے عمران خان صاحب پچھلی حکومت کو دو مہینے کا وقت تک  نہ دے سکے تھے۔ 
زاتی رائے۔
اس کالم میں کسی سیاسی جماعت سے وابستگی یا نرم گوشہ نظر نہیں آتا۔ مثبت تنقید کی گئ ہے۔ جو سوال اٹھائے گئے وہ چشم کشا ہیں ۔ کسی زاتی بغض و عناد کا عنصر ڈھونڈا بھی جائے تو تاریخ اس کالم میں کہی جانے والی باتوں کی تصدیق کرتی ہے۔مشرف دور میں جو جو اقدامات میڈیا کو پابند کرنے کیلئے کیئے گئے یہ حکومت انہی کی توسیق کرتی نظر آرہی ہے۔ احتساب کے نام پر سب احتساب صرف سیاست دانوں اور پنجاب کے منصوبوں پر زور دیتے نظر آرہے ہیں جبکہ کے پی حکومت بھی میٹرو بس منصوبہ ابھی تک مکمل نہیں ہوا لاگت دگنی تگنی ہوچکی ہے مگر اسکا زکر بھی سننے میں نہیں آرہا۔ تبدیلی یہ ہوتی جب سلیم صافی نے کے پی حکومت کا بل اپنے پروگرام میں لہرایا تھا تو نئی حکومت آتے ہی اپنی ہی حکومت کے احتساب سے نئی روایت قائم کرتی جبکہ پرویز خٹک اب آپکو وفاق میں اہم وزرارت کا قلمدان تھامے نظر آرہے ہیں اسی قول و فعل کے تضاد پر سلیم صافئ نے اس کالم میں اس حکومت سے تبدیلی کی امید لگانے والوں کو احمقوں کی جنت میں رہنے والے قرار دیا جو مجھے درست لگتا ہے۔  
۔ہم بدترین دور سے گزر رہے ہیں جہاں اقدار کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ سیاسی مخالفت میں حد سے گزرا جا رہا ہے۔ عدلیہ اپنے کردار کو دوبارہ متنازعہ بنا چکی ہے اپنے یک طرفہ فیصلوں سے یوں لگتا جیسے ایک سیاسی جماعت اور سیاسی خاندان کے سوا سب کے سب دودھ کے دھلے ہیں۔ مشرف کا کیس ابھی تک نہیں کھل پایا۔۔ اسکے بارے میں کوئی بیان بھی سننے میں نہیں آرہا ۔۔ کیو ں کیا احتساب صرف سیاست دانوں کا ہی ہونا ہے ؟  ایک پروگرام میں سلیم صافی نے کہا تھا مجھے نشانہ وزیر اعظم ہائوس سے بنایا جا رہا ہے۔۔۔ 
اس کالم کے بعد لگتا ہے ان پر تابڑ توڑ حملوں میں اضافہ ہی ہوگا۔
۔ قوم سے جھوٹ نہیں بولوں گا: عمران خان۔۔ صاحب بارہا کہتے ہیں۔ یہ سب باتیں کیا دھوکا دہی کے ذمرے میں نہیں آتیں؟ 
حکومت پر تنقید کرنا ہر کسی کا حق ہے۔میرے نزدیک جب آپ کسی کی اندھی حمایت یا تقلید کرتے ہیں تو حقائق صرف آپکو نظر نہیں آتے مگر اسکا یہ مطلب نہیں کہ حقائق اپنا وجود کھو دیتے ہیں۔ہمیں تنقید کو پرکھنا چاپیئے۔ کیا وجہ ہے کہ اس حکومت کے چند دنوں میں ہی سیاسی مخالفت کی انتہائیں دیکھنے کو ملیں کلثوم نواز کی بیماری کی خبر کو ڈرامہ قرار دیا گیا۔ وزیر اطلاعات فحش گوئی کرتے نظر آرہے تو حکومتی ترجمان ہیلی کاپٹر کے استعمال کو جائز قرار دینے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔۔ امریکہ ڈو مور کا دیتے ہیں دوبارہ لاگ الاپ رہا ہے تو سی پیک بند کرنے کا دعوی کیا جا رہا ہے۔ چینی سفیر چار دن رہتا ہے مگر اسکا زکر تک نہیں کیا جاتا۔ بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا دعوی کرتے کرتے حکومت میں آتے ہی بیان داغا جاتا ہے کہ بھارت ایک قدم آگے بڑھائے ہم دو قدم بڑھائیں گے۔ 
اب اگر تبدیلی کی امید نظر آتی ہے تو مجھے صرف خیالات میں تبدیلی آتئ ہی نظر آتی ہے ان تمام لوگوں کے جو ابھی بھی پی ٹی آئی کے تبدیلی کے نعرے سے امیدیں وابستہ کیئے نظر آتے ہیں۔۔۔۔
aik aur raiyay by Nazia Zaidi sochna tu paryga #aikaurraiayay #Pakistanipolitics #think

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

Quaid e azam ke 14 nakat pehla nukta

احمقوں کا ریوڑ Bewildered Herd and modern era

ففتھ جنریشن وار اور ہم