مارچ تو اچھے ہوتے ہیں march tu achay hotay hain
مستقل نام : ایک اور رائے
کالم کا نام : مارچ تو اچھے ہوتے ہیں
اکتوبرکے آخر میں جب آپکے سمسٹر کا مڈ ہوتا ہےاور یونیورسٹیاں زبردستی آپ سے امتحان لینے پر تل جاتی ہیں کوئی سوچ سکتا ہے اس ملنے والی اتاہ خوشی کو جو طلباء امتحان ٹل جانے پر محسوس کرتے ہیں۔ ویسے تو میں طلباء کے سیاسی معاملات اپنے ہاتھوں میں لینے یعنی موبائل فون پر اسٹیٹس شئیرنگ اور دھڑا دھڑ کمنٹ میں مخالفوں کو گالیاں لکھنے کے خلاف ہوں کیونکہ مجھے یہ سب پڑھنے کو ملتا ہے اور مجھے نت نئی رائے بنانی پڑ جاتی ہے مگر پھر بھی میں سیاسی جماعتوں کے طلباء کے معاملات اپنے ہاتھوں میں لے لینے کی پرزور مزمت نہیں کر پا رہی۔ جب آپکے امتحانات سر پر ہوں اور وہ ٹل جائیں تو ایسے سیاسی مارچ دھرنے تو اچھے ہوتے ہیں۔ ہاں تو بات ہو رہی تھی مارچ و دھرنوں کی۔ اس سے قبل بھی اسلام آباد کے طلباء مارچ دھرنے کے ثمرات سے لطف اندوز ہو چکےہیں مگر ماننے والی بات ہے یہ مارچ جو مولانا لا رہے کچھ الگ ہے۔ کیسے ؟ بھئی جب 2014 میں خان صاحب نے مارچ کیا حکومت کہ بنیادیں ہلانے کی ناکام کوشش کے بعد ایک نہ دو ایک سوچھبیس دن دھرنا پھر دھرنی دی مولانا طاہر القادری کے ہمراہ تو انکے راہ میں آنے والے اسکولوں کالجوں کے بچوں کی تو چاندی ہوئی مگر باقی پنڈی میں رہنے والوں کا کیا؟ وہ تو آرام سے گھومتے پھرتے رہے میرا مطلب یہاں کے طلباء سے تھا۔ ہاں کچھ بچے بچیاں رات کو خان صاحب کے دھرنے میں مفت کانسرٹ دیکھنے جاتے رہے یہ معمولی تفریح بھی نکتہ دانوں کی نکتہ چینی سے بچ نہ سکی۔ گو خان صاحب کے مارچ میں جانے کیلئے مجھے بھی میرے دوستوں ساتھیوں نے منانا چاہا مان بھی جاتی مگر پھر دھرنوں میں خواتین کے ساتھ جو بد تمیزیاں ہوئیں ان سے خوف کھا کر مفت کنسرٹ دیکھنے کا یہ موقع میری بزدلی کے ہاتھوں ہاتھ سے جاتا رہا۔ مگر ہاں اسکے بعد بھی ننھے منے دھرنے دھرنیاں دیکھنے کو ملتی رہیں کبھی ہائی وے پر ہی حکومت مارچ روک دیتی دو ڈنڈے مار کر آنسو گیس پھینک کر حالانکہ خان صاحب کے ہزاروں جان نثار جن کو حکومت سینکٹروں کہتی تھی پورا حق رکھتے تھے اسلام آباد آکر دوبارہ دھرنے دینے پر یہاں کا امن خاکستر کرنے اسکولوں کالجوں میں چھٹیاں کروانے کا مگر حف۔ معاملہ توڑ پھوڑ تک ہی محدود رہا۔ زیادہ سے زیادہ دو چار پولیس افسر پٹ جاتے تھے۔ مگر پورا دن کی تفریح تھی کہ نہیں؟ سارا دن ٹی وی پر سنسنی خیزی چھائی رہتی تھی اب جانے کیا ہوگا حکومت الٹی پلٹی ؟اور تو اور ہر دوسرے دن کسی نہ کسی تجزیہ نگار نے حکومت کے جانے کی اطلاع بھی دی۔مگر ایسی ڈھیٹ حکومت کہ وقت پورا کرکے ہی گئ۔ لیکن ماننے والی بات ہے تفریح ڈرامہ لفافہ سنسنی ٹی وی چینل کوئی سا بھی ہو سارا سارا دن ڈرون سے فوٹیج لے لے کر دھرنے کو دکھاتے رہے اور جب دھرنی رہ گئ تو بس پرانے فوٹیجز سے گزارا کیا۔ کیا کیا کہانیاں نہیں سننے کو ملی دھرنوں میں خواتین کے ساتھ بد سلوکی ، کبھی عورتوں اور بچوں کےوبائی امراض کا شکار ہو کر بیمار ہونے تو کبھی سخت سردی میں مولانا طاہر القادری جب سینہ تان کر کہتے آئو مارو مجھے میرا سینہ حاضر ہے یقین جانیئے دھرنے والوں کی کپکپی میں کمی آتی ہو نہ آتی ہو سیاسی ماحول جون کی گرمی کو مات دیتا تھا۔ ہوا خیر کچھ بھی نہیں۔ ان دھرنے اور آزادی مارچ سے نہ استعفی ملا نہ ماڈل ٹائوں والے قاتل ملے الٹا 2019 تک قادری صاحب سیاست چھوڑ بیٹھے۔ کاش 2014 میں یہ فیصلہ لیتے مگر چلو دیر آید درست آید۔ عمران خان نے چار حلقے کھلوائے اور چاروں ہی اگلے الیکشن میں کھو بیٹھےمگر اقتدار اعلی مل گیا۔۔ یعنی آم کے آم گٹھلیوں کے دام۔۔ آپکا خیال ہے میں نے غلط محاورہ استعمال کیا یہاں؟ نہیں دوبارہ پڑھ کر دیکھ لیں۔۔ہاں تو آخر مارچ یا دھرنےکی کامیابی کیلئے آخر ایسا کیا کیا جائے کہ وہ کامیاب ہوں ؟ پچھلے سال خادم حسین رضوی صاحب بھی دھرنی دے بیٹھے تھے۔بڑی امید تھی ان سے کہ کم از کم پچھلے سال کے امتحان تو ٹلواتے مگر نہ جی فیض آباد میں دھرنا دیا ہمیں یونیورسٹی کی بسوں نے آرام سے یونیورسٹی پہنچایا البتہ جب وہ بسیں جلانے اور توڑنے پر تلے تب یونیورسٹی نے بسیں تو نہ چلائیں البتہ مجھے اور میری بہن کو بھائی کے ساتھ بائک پر پندرہ منٹ دور کی ڈرائیو پر موجود گھر پر پورے تین گھنٹے میں راولپنڈی کی ہر چھوٹی بڑی گلی کا دورہ کر چکنے کے بعد پہنچنا پڑا۔ ہم تین لوگ کیسے گئے وہ علیحدہ کہانی سمجھیں راستے کے پتھر تک مزاق اڑاتے محسوس ہو رہے تھے۔امتحان تک نہ ٹلےامتحان میں جو پہنچ گیا پہنچ گیا جو نہیں پہنچ پایا اسکی قسمت۔ نقصان کا تخمینہ خادم صاحب کے دھرنے کا پانچ سو ارب تک بنا تو خان صاحب کا تین کھرب تک کا۔ مولانا خادم کے دھرنے میں دو خاکروب جان سے گئے البیراق والوں کے جس پر احتجاج کے طور پر پورے دو دن البیراق (جو راولپنڈی کی گلیوں سے کوڑا کرکٹ اٹھانے پر معمور ہے )نے کوڑا نہ اٹھایا۔ تعفن پھیلا گھروں سے کوڑا اٹھوانے والے سست کاہل لوگوں کو سڑک پر رکھے کوڑے دانوں تک آنے کی زحمت کرنی پڑی۔ پتہ لگا کہ دھرنہ ہوا ہے مگر موجودہ مارچ مولانا فضل الرحمان کا اخیر الگ سا ہے بھئ۔ ابھی پنڈی پہنچا بھی نہیں کہ امتحانات ٹل گئے راستے میں آنےوالی یونیورسٹیاں کالج بند ہو گئے۔میڈیا پر مولانا کی تقاریر بین ہیں مارچ کی لائیو کوریج نہیں ہو رہی ہے انکا لائیو سوشل میڈیا چینل بھی بند مگر درجنوں کنٹینر اسلام آباد میں لگ چکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ویڈیوز میں سر ہی سر دکھائی دیتے ہیں اور جھنڈے ہی جھںڈے اگر ٹی وی نہ دیکھیں تو آپکو لگے گا ہی نہیں کہ ن لیگ چپکے سے مولانا کا ساتھ چھوڑ گئ ہے اور پی پی پی کے جیالے سندھ سے واپس مڑ چکے۔ مارچ میں ان دونوں جماعتوں کے کارکنان سوشل میڈیا پر بھر پور نظر آتے ہیں۔ مگر رنگین جھنڈوں میں رنگین دوپٹے نظر نہیں آتے۔ بچوں کی کوئی دلچسپ ویڈیو تک نہیں دیکھنے کو مل رہی جس میں وہ رنگین ٹوپیاں پہن کر سیاسی تقریر کرتے نظر آئیں جیسا کہ پچھلے مارچ میں ہوا۔ نہ ہی سڑکوں کے ڈیواڈر توڑے گئے نہ ٹائروں کو آگ لگائی لاہور میٹرو بس شرکا ء کے درمیان سے کسی ملکہ کی طرح کروفر سے گزرتی رہی کسی نے میٹرو کے شیشے تک پر پتھر نہ اچھالا۔ جبکہ پچھلے مظاہروں میں یاد ہے نا پورا میٹرو اسٹیشن ہی اجاڑ ڈالا تھا بسیں الگ توڑی لگتا تھا کوئی فساد بپا ہےیہ عجیب سڑیل لوگ ہیں تقریریں سن رہے اور بڑھے چلے آرہے ہیں اسلام آباد پہنچ کر اب دھرنا دیں یا مارچ کرتے ریڈ زون میں جائیں مجھے ان ٹھنڈے لوگوں سے کسی قسم کی سنسنی خیزی کی توقع نہیں۔ پچھلے مارچ و دھرنیوں کے برعکس اس بار تجزیہ نگار بھی حکومت کے جانے کی کوئی پیشن گوئی نہیں کر رہے۔ یہاں سوال اٹھتا جب وہ پیشن گوئیاں کر رہے تھے تب تو حکومت نہیں گئ اب جب پیشن گوئیاں نہیں کر رہے تو کہیں اسکا الٹ تو نہیں ہونے والا؟ اوپر سے اتنی تعداد کا ایک فائدہ تک نہیں اٹھا رہے۔ ایسا مارچ جس میں کوئی نہ ناچ نا گانا نہ بچے نہ خواتین ایسا مارچ ٹی وی پر بلیک آئوٹ ہی ہونا چاہیئے۔سمجھ نہیں آتا وہ مارچ عوام کا تھا جو اپنی ہی چیزیں توڑ پھوڑ رہے تھے یا اس بار اصل عوام اٹھ آئی ہے جو کم از کم ااملاک کو نقصان نہیں پہنچا رہی چونکہ آج کل رائے دینے پر معاملات بگڑ رہے ہیں تو ذہن میں اٹھتا سوال چھوڑ ے جاتی ہوں۔ اگر ناچ گانے والے مارچ ناکام ہیں تو کیا ایسے سوکھے سڑے کامیاب ہو سکتے ہیں؟اخیر بکواس سوال کیا ہے میں نے کیونکہ اچھے سوال کرنا فضول ہیں اچھے جواب صرف وقت دیتا ہے تو دیکھتے ہیں وقت کا پہیہ کتنا تیز چلتا ہے۔ ایک بات ہے مولانا خادم حسین رضوی کے دھرنے کے شرکا کو اتنا نقصان کرنے پر بھئ ہمارے بڑوں نے ہزار ہزار دے کر رخصت کیا تھا تو ان والے مولانا کے شرکاء جس طرح پرامن طریقے سے آرہے ہیں بڑا انعام ملنا چاہیئے۔ ہے نا؟
aik aur raiyay by Nazia Zaidi
sochna tu paryga
#aikaurraiayay #PAkistanipolitics #azadimarch2014
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں