Media and its importance in under developing countries like pakistan
فی زمانہ میڈیا کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں۔ میڈیا لوگوں کی زندگی کا اسی طرح حصہ بن چکا ہے جس طرح لوگ اپنے معمولات زندگی میں کھانا کھاتے پانی پیتے ہیں نہاتے ہیں وغیرہ۔ میڈیا صرف ٹی وی ریڈیو تک محدود نہیں رہا بلکہ سماجی روابط کی ویبگاہوں کا بھی اس میں ایک بڑا حصہ ہے۔ لوگ ٹوئٹر فیس بک انسٹا پر نہ صرف اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں بلکہ اپنی زندگی کے معمولات کا عکس پیش کرتے ہوئے اسکو اپنی کمائی کا ایک ذریعہ بھئ بنا چکے ہیں۔ وہ سماجی روابط کی ویبگاہوں کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں پر اپنے معمولات زندگی کا حصہ بن چکی تعیش اور سہولیات کا پرچار کرتے ہیں ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ لوگ اس بات پر توجہ دیے بنا کہ انکی اپنی ضرورت کیا ہے نا صرف متاثر ہوتے ہیں بلکہ نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مہنگی اشیاء خریدتے ہیں اپنی ظاہری شخصیت میں اپنے پسندیدہ اداکاروں فنکاروں و سوشل میڈیا کے فنکاروں کی جھلک دیکھنا چاہتے ہیں۔
اس میڈیا کے جن کا غلبہ شروع ہوتا ہے پہلی جنگ عظیم سے جب والٹر لپمن ایک امریکی تجزیہ نگار ' صدر صحافتئ تنظیم اور مشہور لبرل ( آزادخیال) جمہوریت کے تصور کے بانیوں میں سے ایک تھا۔ اسکے خیال میں جمہوریت میں دو طبقے ہوتے ہیں ۔
ایک اقلیتئ مگر بااثر طبقہ جیسے دانش ور اشرافیہ وغیرہ دوسرے عوام جسے اس نے حیران ریوڑ یعنی bewilderd herd کا نام دیا۔ اسکے خیال میں پہلا طبقہ حکمرانی کے لائق ہے۔ عوام کے مسائل کا تعین ، انکی رائے اپنے مفاد کے مطابق ہموار کرنا اورعوام سے اپنے احکام منوانے کے طریقے ڈھونڈنا جبکہ عوام ایک احمق ریوڑ ہے کہ اگر اسے بنا کسی رہنمائی کے چھوڑا جائے تو وہ اپنے لیئے بھی نقصان دہ ہوں گے۔
اس نے آج سے اسی پچاسی سال قبل کے امریکی پراپیگنڈے میں حصہ لیا تھاجس کے ذریعے عوامی رائے کو جنگ کے حق میں ہموار کیا گیا تھا۔ ہوا یوں کہ سن انیس سو سولہ میں ووڈ رو ولسن جو کہ Peace without victory نامی پلیٹ فارم کا صدر بنا (یہ پہلی جنگ عظیم کے درمیان کی بات ہے)تو اس وقت امریکی عوام امن پسند تھئ اور اسے یورپین جنگ سے قطعی کوئی سروکار نہیں تھا لیکن ولسن کی انتظامیہ جنگ کیلئے پرعزم تھی اور اس مقصد کیلئے انہیں کچھ کرنا تھا۔ انہوں نے سرکاری پراپیگنڈہ کمیشن تشکیل دیا جس نے ریڈیو پروگرامز ، اخبارات دانشوروں اور کچھ حد تک ٹی وی پروگراموں کے ذریعے چھے مہینے کے اندر عوامی رائے عامہ ہموار کی اور پرامن عوام کو نفسیاتی بنا کر جنگ کے سوداگروں میں بدل ڈالا جو جرمنوں سے سب کچھ چھین لینا چاہتے تھے ان سے جینے کا حق بھی۔اب عوام چاہتے تھے کہ جنگ لڑیں دنیا بچالیں۔
ان تمام ابلاغ عامہ کو استعمال کرکے ایسے ایسے قصے کہانیاں سننے میں آئیں جنکا سر تھا نا پیر مگر عوام نے ان پر یقین کیا۔اس دور میں بیلجین بچوں کے ہاتھ کاٹے گئے جیسی دلخراش کہانیاں بنائی گئیں۔ ان میں ذیادہ تر برطانوی پراپیگنڈہ وزارت کی ایجاد کردہ تھیں مقصد سوچ کو مرضی کے مطابق ڈھالنا تھا بلکہ معاشرے کے دانشور افراد کی سوچ پر قابو پانا تھا کہ وہ رائے عامہ ہموار کریں انکے افکار کو پھیلا کر اور عوام کو جنگی جنون میں مبتلا کرنے پر ایک کردیں۔ طریقہ کامیاب رہا ۔۔۔عوامی ہمدردی حمایت بلا مشروط امریکہ کے حصے میں آئی جبکہ اس جنگ کی وجہ سے امریکہ میں شدید کساد بازاری کا راج ہوابے روزگاری بڑھی۔ افرادی قوت میں کمی کے باعث خواتین کو معیشت کا حصہ بنانے کیلئے فیمنزم کا نعرہ بلند کیا گیا مگر عوام نے کبھی امریکہ کو جنگ میں کود پڑنے پر تنقید کا نشانہ نہیں بنایا۔
9/11 اور امریکی خبررساں اداروں کا پراپیگنڈا۔
9/11 کا واقعہ جہاں دنیا بھرمیں دہشت گردی کی ایک نئی لہر دوڑا گیا وہاں امریکی اداروں کی جانب سے خبروں تجزیوں کے ذریعے پوری دنیا پر مسلمانوں کے خلاف بھرپور پراپیگنڈا کیا گیا اتنا کہ مسلمان دنیا بھر میں شک کی نگاہ سے دیکھے جانے لگے۔ پاکستانیوں نے خاص کر اس امریکی پراپیگنڈے کا سب سے ذیادہ نقصان اٹھایا۔ دنیا بھر میں پاکستان ایک دہشت گرد اور پسماندہ ملک ثابت کیا گیا۔ اور اس پراپیگنڈے کے تدارک کیلئے ہمارے پاس میڈیا کے نام پر صرف ایک چینل تھا۔پی ٹی وی۔ جہاں ایک بڑے ملک کے نشریاتی ادارے بھرپور پراپیگنڈا کر رہے ہوں وہاں ایک چینل کی حیثیت اونٹ کے منہ میں زیرے سی بھی نہیں ہو سکتی۔
بھارتی میڈیا وار۔
بھارت نے بھی اپنے مضبوط میڈیا کے نظام سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ پوری دنیا میں پاکستان کی ہر معمولی خبر کو دنیا میں بڑھا چڑھا کر بیان کیا۔ کشمیر کے معاملے پر اپنے پراپیگنڈا ٹولز سے دنیا پر یہ ثابت کیا کہ پاکستان انکے داخلی معاملے میں دراندازی کرتا ہے۔
اگر ہم تفریحی میڈیا کی بات کریں تو بھی بھارت کے ڈرامے فلمیں 2000 کی دہائی میں پاکستانی عوام پر کسی عفریت کی طرح چھائے رہے۔کیونکہ ساس بھی کبھی بہو تھی، کہانی گھر گھر کی وغیرہ جیسے ڈرامے کئی کئی گھنٹےپاکستانی عوام کے گھروں میں چلتے رہے۔ اتنئ بڑی تعداد میں بھارتی مواد دیکھنے کا نتیجہ عوام میں ہندی زبان کے بے شمار الفاظ کا غیر ضروری رائج ہونے سے لیکر بہت سے ایسے بے باک موضوعات کا اب کھل کر نجی محافل میں تزکرہ عام ہوجانا تک جیسا معاشرتی نقصان اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
اس کے مقابلے میں پاکستانی میڈیا میں شدید افراتفریح رہی۔ نت نئے چینلز کھلنے سے عوام کو تفریح کا کچھ مواد تو ملا مگر طلب و رسد کا بڑا خلا پیدا ہوا۔ ہر طرح کا مواد بننا اور دکھایا جانے لگا۔ بھارتی مواد کے مقابلے میں بھارت جیسا ہی مواد تخلیق کیا گیا۔
نتیجہ اس وقت عوام کی ایک بڑی تعداد تفریح کیلئے غیر ملکی مواد کی طرف رجوع کر چکی ہے۔
90 کی دہائی میں جو ڈرامے بنے ان میں خال خال ہی کوئی ایسا ڈرامہ نظر آتا تھا جس میں کوئی خاندانی جھگڑا اس نہج تک پہنچے کہ گھر کے افراد کی ایک دوسرے پر ہاتھ اٹھانے کی نوبت آئے ان میں بھی اکثر ہاتھ بس خلا میں معلق ہوتا دکھائی دیتا تھا مگر اب تقریبا ہر ڈرامے میں ایسا منظر نظر آتا ہے۔ جس میں بھائی بہن پر شوہر بیوی پر ساس بہو پر ہاتھ بلا تکلف اٹھا رہی ہے۔
وجہ بنی ایک مخصوص طبقے کیلئے لکھے جانے والے مواد خواتین کے ڈائجسٹس کی لکھاریوں کا ٹی وی ڈرامہ صنعت میں داخل ہو کر گھریلو کہانیوں کے نام پر پچاس سال سے گھسی پٹی کہانیوں کو بنا سر پیر سوپ سیریل کے نام پر بڑھاتے چلے جانا ۔ اس بلا سے کوئی لکھاری محفوظ نہ رہا اور نت نئے دلچسپ موضوعات پر لکھنے کی بجائے سب نے انہی کہانیوں پر توجہ مرکوز رکھی ۔ یوں میڈیا مثبت ذہن سازی کرنے کی بجائے عوام میں انتشار تشدد اور بے راہ روی کا پرچار کرتا گیا۔
نفسیات دان کہتے ہیں ہم وہی کچھ ہیں جو ہم سارا دن سوچتے ہیں۔ سوچتے آپ انہی معاملات اور نظریات پر ہیں جو آپکو دکھائی دیتے ہیں آپکے سامنے جن پر مباحثہ ہوتا ہے۔ ایک عام پاکستانی خاندان جس کے گھر میں تفریح کا ذریعہ ٹی وی ہے وہ دیکھ رہا ہے گھریلو جھگڑے ہاتھا پائی ہے یا سیاسی رسہ کشی انکو دکھائی جا رہی ہے۔ تشدد دیکھنا اب ایک معمول کی بات بن چکا ہے۔ بازاری زبان اب گھروں کا رخ کر چکی ہے۔ بچے گھریلو سازشوں پر مبنی ڈرامے ہی دیکھ رہے ہیں
اور جس گھر میں موبائل استعمال ہوتا ہے وہاں غیر ملکی ہر طرح کا بے باک مواد غیر ملکی معاشرے کی عکاسی سے آپکے بچوں کی ذہن سازئ کر رہا ہے۔ اس وقت کی اہم ضرورت ہے کہ پاکستان میں نت نئے ایسے پلیٹ فارمز متعارف کرائے جائیں جس سے صحتمندانہ تفریحی سرگرمیوں کا فروغ ہو سکے۔
اسکے لیئے ٹی وی چینلز بہترین پلیٹ فارم ثابت ہو سکتے ہیں۔
اسکی بہترین مثال جنوبئ کوریا ہے۔ جنوبی کوریا ایشیاء کا ایک ترقی یافتہ ملک ہے جس کی ڈرامہ انڈسٹری نہایت تیزی سے نمو پارہی ہے۔ اسکے بنائے گئے مواد کے امریکی چینی جاپانی تھائی ہر جگہ باقائدہ حقوق لیکر دوبارہ بنائے جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ڈراموں کے موضوعات میں تنوع تو پیدا کیا ہی ہے بلکہ خاص کر مختلف کوریائئ حکومتی ادارے ڈراموں کو باقائدہ سپانسر کرتے ہیں کوریا کی ثقافت و بودوباش کے فروغ کیلئے ۔ کوریا کے تاریخی مقامات کی منظر کشی پر مبنی سیریل بناتے ہیں جن میں انکی ہزار سالہ تہزیب کی کہانیوں کو جدید انداز سے دکھا کر عوام کو اپنے روائتی ثقافتی ورثے سے روشناس کرا ہی رہے ہیں بلکہ دیگر دنیا کو بھی اپنے ملک کا بےحد روشن ر خ پیش کرتے ہیں۔ انکی سیاحتی صنعت کو بے حد فروغ ملا ہے ڈراموں میں سیاحتئ مقامات کی منظر کشی سے۔ دنیا بھر سے لوگ کوریا صرف سیر کرنے کی نیت سے بھی جاتے ہیں وجہ کسی ڈرامے میں کسی مقام کی بہتر منظر کشی انہیں وہاں جا کر دیکھنے پر اکسا دیتی ہے۔ نیز کوریا کھیلوں میں بھی بہت آگے ہے۔ اپنے نوجوانوں کو کھیل کود کی طرف راغب کرنے کیلئے وہ ان کہانیوں کرداروں کونمایا ں کردیتے ہیں جن میں کوئی کھلاڑی اپنے کیریر پر توجہ دے رہا ہے۔ وغیرہ۔ ساتھ ساتھ سماجی مسائل پر بھی توجہ بھرپور ہے۔ کوریا میں بچوں پر تعلیم کا دبائو بے حد ہے۔ انکے نوجوان امتحان میں ناکامی پر خودکشی کرلیتے ہیں انکے اکثر ڈرامے نوجوان طلباء کی زندگی کے اتار چڑھائو پرمبنی ہیں جس میں وہ کرداروں کو حالات سے نمٹنے کا درس دیتے ہیں۔
اگر پاکستانی میڈیا بھی اسی ڈگر پر چلتے ہوئے ایسے موضوعات کا احاطہ کرے عوام کو ڈراموں کے ذریعے تفریحی تعلیم دینے کے موقع پیدا کرے ۔تو بہت سے معاشرتی مسائل جیسے گھریلو تشدد کا تدارک ہو سکتا ہے تو پاکستان کی خوبصورت
تصویر بھی دنیا کو دکھائی جا سکتی ہے۔
aik aur raiyay by Nazia Zaidi sochna tu paryga #aikaurraiayay #Pakistanipolitics #think #syasat #parliment #IamPakistan #democracy #syasibatain #khabrain #tajziyay #pakistan #lahore #karachi #islamabad #india #pakistani #love #instagram #fashion #photography #imrankhan #urdu #follow #urdupoetry #instagood #pakistanistreetstyle #punjab #kashmir #peshawar #poetry #nature #islam #pakistanzindabad #like #dubai #rawalpindi #tiktok #pakistanifashion #bollywood #bhfyp #pakistaniblogger #pakistan #pakistanibloggers #pakistani #lahore #pakistanifashion #karachiblogger #blogger #pakistanistreetstyle #karachi #foodblogger #islamabad #fashionblogger #instagram #pakistanicelebrities #lifestyleblogger #aimankhan #pakistaniwedding #instagood #ootd #karachibloggers #dawn #love #desiblogger #pakistaniweddings #ary #bcw #pakistanentertainment #talkistanofficial #bhfyp سیاسی منظر نامہ
x
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں