بچوں سے ذیادتی والدین کی غفلت ہے
سوال تو کیجئےمدارس میں کیا ہو رہا ہے ؟
لاہور کے مدرسے میں مفتی عزیز الرحمان کی ایک بچے کے ساتھ بد فعلی کی ویڈیو سماجی روابط کی ویب گاہوں پر نشر کی گئ ہے اسکے بعد سے مزہبی طبقے اور لبرل طبقے میں خیالات کے ٹکرائو اور لفظی جنگ شروع ہو چکی ہے۔ جہاں لبرل طبقہ مولویوں کو اس معاملے پر چھوڑنے پر تیار نہیں وہیں مولوی طبقے کے حامی لبرلز کو چھوڑنے کے حامی نہیں۔ سارا معاملہ ڈالا ایک مولوی پر ایک انفرادی مثال کہہ کر لاتعلقی کا اظہار۔ مگر کیا یہ بس ایک انفرادی مثال ہے ؟؟؟؟ ہرگز نہیں۔۔۔
پچھلے کچھ دنوں سے سبوح سید اس معاملے کو سماجی روابط کی ویب گاہوں پر اٹھا رہے ہیں کہ مدارس میں کیاہورہا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ایک واقعہ نہیں ہے ایک بچہ نہیں ہے ۔۔ نجانے کتنے معصوم بچے ہوس پرست ملائوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔۔ جواب میں انکو مذہبی طبقے کی جانب سے مغلظات بھی سننے کو مل رہے ہیں اور تعلیمی اداروں کی مثالیں بھی دی جا رہی ہیں۔
مسلئہ ہے کیا آخر؟؟؟؟؟؟
اگر آپ مولوی کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں تو مت بھولیئے کہ تعلیمی اداروں میں بھی اساتذہ کے اپنے طلباء کو ہراساں کرنے کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔
مخلوط اداروں میں گناہ کا بازار گرم ہے تو لاہور کا وہ خالص خواتین کا تعلیمی ادارہ مت بھولئیے جس کی طالبات ابھی کچھ ہی عرصہ قبل احتجاج کر رہی تھیں انتظامیہ کی مجرمانہ خاموشی پر جو انکو مرد اساتذہ کی جانب سے ہراسگی کا نشانہ بنانے پر اختیار کیئے ہوئے تھی۔
انتہا دونوں جانب ہے۔
کیا کریں؟ علم حاصل کرنا ہی چھوڑ دیں کہ ہمیں تعلیم دینے والے درندے بن گئے ہیں؟
علم حاصل کرنا مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔
اب علم کونسا؟ کیا صرف دنیاوی؟ نہیں کیا صرف دینی نہیں۔۔
یہ دو انتہائیں ہماری اپنی پیدا کردہ ہیں۔
علم کی کوئی حد نہیں۔ قرآن کھولیئے جا بجا اللہ کا فرمان ہے تم غور کیوں نہیں کرتے ؟
زندگی گزارنے کا ایک ڈھنگ چودہ سو سال پہلے دیا جا چکاہے۔ ہاں یوں امداد کے ذریعے مدرسے کھولنے کا ڈھنگ نیا ہے۔
ایک صدی قبل بھی تعلیم دینے کا یہ ڈھنگ جو آج لبرل یا مزہبی طبقہ اختیار کر رہا یے اپنا وجود بھی نہیں رکھتا تھا۔عجب بات یہ ہے کہ تب بڑے بڑے علماء گزرے بڑے بڑے سائنسدان گزرے جن کا نام آج تک فخر سے لیتے ہیں مگر افسوس اب نا ہم سائنسدان پیدا کررہے ہیں نا عالم۔
جو انگریزی یا لبرل تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کررہے وہ قرآن بچپن میں پڑھ کر چوم کر طاق پر سجا کر کھولنا بھی بھول بیٹھے ہیں
جو دینی مدارس میں پڑھ رہے وہ سب احکام رٹ چکے اب بس مستقل سن گن جاری ہے۔
اسلام اگر مخلوط تعلیم کی اجازت نہیں دیتا تو دینی تعلیم حاصل کرنے کا رائج الوقت طریقہ بھی ہرگز درست نہیں۔
کہاں لکھا ہوا ہے بچے سارا دن بس مزہبی کتب کا مطالعہ کریں؟
جہاں پڑھیں وہیں رہیں؟؟؟؟۔
والدین کی خواہش کہ انکا بچہ حافظ بنے انکی اس زمہ داری سے انہیں کیسے مبرا کرتا ہے جو بحیثیت والدین ان پر فرض ہے بچے کی تعلیم و تربیت کی؟؟؟؟
کہاں کس کتاب میں لکھا ہوا ہے اپنے نابالغ بچوں کو تربیت کیلئے کسی مفتی کے حوالے کردو؟
دوسری جانب ذرا لبرل طبقہ بھی بتائے انکے بچوں نے آخری بار قرآن کب پڑھا؟ کیا اسے ترجمے سے ختم کیا؟
دونوں جانب اتنی بڑی غلطی کی جا رہی ہے کہ اس غلطی کے سبب ان دونوں الگ ماحول کے لوگوں کو جب ایک معاشرے میں اکٹھا رہنا ہے تو یونہی فساد ہوگا۔ جیسے ہو رہا یے۔
پہلے گھر کے بزرگوں کا کام ہوتا تھا بچوں کو قرآن کی تعلیم دینا اب وہ بزرگ بن چکے ہیں جنہوں نے خود قرآن لپیٹ رکھا ہے یا کبھی ترجمے سے پڑھنے تک کی کوشش نہیں کی اس پر غور و فکر دور کی بات۔
پھر ایسا ہی ہوگا۔
آپکا بچہ آپکی توجہ آپکی تربیت سے دور کسی جدید دور کے تعلیمی ادارے کے استاد کے ہاتھو ں ہراساں ہوگا تو کبھی مدرسے میں جنسی زیادتی کا شکار ہوگا
کیونکہ آپ نے بس بچوں کو پیدا کرنے کی زمہ داری اٹھائی ہے انکی تربیت سے جی چراتے ہیں آپ۔ مانا آپ اپنے بچوں کو گھر میں دینی دنیاوی تعلیم نہیں دے سکتے مگر جب انکو یوں کسی مولوی یا پروفیسر کے رحم و کرم پر چھوڑنے لگیں تو کیا آپ پر اتنا بھی فرض نہیں کہ بچوں کو انکے اچھے برے کا بتائیں۔ انکے ساتھ اتنا ربط رکھیں کہ وہ کسی بھی مشکل میں بلا جھجک آپکو اپنا مسلئہ بتائیں انکو اپنے اندر آتی جسمانی تبدیلیوں کے بارے میں آگاہ کرنا اور اچھا برا بتانا والدین کا فرض ہے۔۔۔۔
نا کسی پورن ویب سائٹ کا نہ ملا کے فقہی مسائل پر مبنی کتب کا۔
اوروقت کی ضرورت یہی ہے کہ نصاب پر توجہ دی جائے۔دیکھا جائےبچے کیا پڑھ رہے ہیں۔ کس ماحول میں پڑھ رہے ہیں ۔ اسکولوں کی جیسے نگرانی ہوتی ہے اسی طرح مدارس کی بھی نگرانی کی جائے۔۔ تعلیم کا وقت مقرر کیا۔جائے ہاسٹلز چاہے وہ مدارس کے ہوں یا دیگر اداروں کے ان کی سرگرمیوں کی مکمل تفصیل حکومت کے پاس ہونی چاہیئے۔
بچوں کو بنیادی سیکس ایجوکیشن دینے کیلئے نصاب بنایا جائے
اور چھوٹی موٹی مہمیں حکومتی سطح پر چلا کر بچوں تک اس نصاب کوحکومتی سرپرستی میں پہنچایا جائے۔
جو دونوں طرح کے اداروں پر فرض ہو۔
لبرل بچے ڈھکی چھپی بائو پڑھتے ہیں تو مزہبی بچے فقہہ کے وہ
مسائل پڑھتے ہیں جن پر کسی عام انسان کا ذہن بھی نہیں جاتا۔
دونوں ہی معاشرتی بگاڑ کا باعث ہیں۔
ایک کو مناسب جواب نہیں ملتے دوسرے کا ذہن غیر ضروری سوالوں میں الجھایا جا رہا ہے۔
خدارا والدین ہوش کے ناخن لیں۔ اس معاملے پر آواز اٹھائیں۔اپنی گزارشات حکومت وقت تک پہنچائیں۔ کوئی ایک لائحہ عمل اب طے کرلیا جائے۔ مزید معصوم بچوں کے بچپن کی قربانی نا لی جائے۔اب مزید کوئی ظلم زیادتی نہیں بس اب بس۔
مزہب پر چند کی اجارہ داری قبول نہیں۔ اسلام ہر کلمہ گو کو برابر سمجھتا ہر کلمہ گو پر فرض ہے دین کا علم۔ قیامت کے دن یہ کہہ کر آپ بچ نہیں جائیں گے کہ ہمیں تو فلاں ملا نے یہ بتایا وہ کہاوہاں جواب دینا ہوگا کیا تم نے غور و فکر نہیں کیا؟ کیا تم عقل نہیں رکھتے ؟ ایمان والوں جب تمہارے پاس کوئی خبرپہنچےتو تصدیق کر لیا کرو۔۔۔ پھر مفتی مولوی عالم دین کی کہی بات پر پرکھے بنا یقین کرنے والوں کیا جواب دوگے؟؟؟
ابھی قیامت نہیں آئی ابھی آپ زندہ ہیں ابھی وقت ہے
قرآن پڑھیں بچوں کو خود پڑھائیں پڑھنا نہیں آتا خود پڑھنا سیکھیں بچوں کو قرآن حفظ کرانا آپ پر فرض نہیں ہے آپکا خود اپنے لیئے قرآن پڑھناآپ پر فرض ہے۔
پڑھیں بہت سے فقہی مسائل خود حل کرنے کے قابل ہو جائیں گے اور کچھ فقہی مسائل ختم بھی ہو جائیں گے۔آزمائش شرط ہے۔۔۔
#aikaurraiayay #Pakistanipolitics #think #syasat #parliment #IamPakistan #democracy #syasibatain #khabrain #tajziyay
#pakistan #lahore #karachi #islamabad #india #pakistani #love #instagram #fashion #photography #imrankhan #urdu #follow #urdupoetry #instagood #pakistanistreetstyle #punjab #kashmir #peshawar #poetry #nature #islam #pakistanzindabad #like #dubai #rawalpindi #tiktok #pakistanifashion #bollywood #bhfyp
#pakistaniblogger #pakistan #pakistanibloggers #pakistani #lahore #pakistanifashion #karachiblogger #blogger #pakistanistreetstyle #karachi #foodblogger #islamabad #fashionblogger #instagram #pakistanicelebrities #lifestyleblogger #aimankhan #pakistaniwedding #instagood #ootd #karachibloggers #dawn #love #desiblogger #pakistaniweddings #ary #bcw #pakistanentertainment #talkistanofficial #bhfyp
سیاسی منظر نامہ
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں