اشاعتیں

جون, 2021 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

وزیر اعظم خاموش۔۔۔۔

پرچی والا وزیر اعظم جو پرچی دیکھ کر بولتا ہے یہ الزام سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف پر اتنی تواتر سے لگا جوابا انہوں نے خاموشی اختیار کیئے رکھی۔ہر وقت ہر جگہ انکے اٹھنے بیٹھنے بولنے کا یوں حساب رکھا جاتا تھا جیسے سماجی روابط کی ویب گاہوں کو منکر نکیر کا عہدہ مل چکا ہے۔ مگر ایسا ہوتا کیوں تھا؟ جی جدید دور کے تقاضوں سے نپٹنے کیلیئے تحریک انصاف بنانے والوں نے اپنا الگ سوشل میڈیا ونگ بنایا تھا جس  میں انہوں نے سماجی روابط کی ویب گاہوں کو کو استعمال کرنے والوں کو اپنا ہتھیار بنانے کا سوچتے ہوئے دھڑا دھڑ تحریک انصاف کے حامی صفحات بنائے پروفائلز بنائے اور فیس بک پر اتنے مشہور ہوگئے کہ 2013 کے انتجابات میں یوں لگنے لگا کہ تحریک انصاف تین تہائی اکثریت لے جائے گی مگر ایسی اشتہاری مہمیں بنانے والے اور انکو دھڑا دھڑ لائکس دینے والے سب پورے پاکستان کا صرف اس 17 فیصد کا حصہ ہیں جو انٹرنیٹ اور اسمارٹ ڈیوائسز کو استعمال کرنے کے قابل ہے۔ان میں بھی اکثریت نوجوانوں کی رہی مگر پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کیلئے کوئی ڈاکٹرائن بناتے وقت یہ بات ذہن میں رکھنئ چاہیئے کہ آپ کسی ایک سطح پر توجہ دے کر انقل...

بچوں سے ذیادتی والدین کی غفلت ہے

سوال تو کیجئے مدارس میں کیا ہو رہا ہے ؟  لاہور کے مدرسے میں مفتی عزیز الرحمان کی ایک بچے کے ساتھ بد فعلی کی ویڈیو سماجی روابط کی ویب گاہوں پر نشر کی گئ ہے اسکے بعد سے مزہبی طبقے اور لبرل طبقے میں خیالات کے ٹکرائو اور لفظی جنگ شروع ہو چکی ہے۔ جہاں لبرل طبقہ مولویوں کو اس معاملے پر چھوڑنے پر تیار نہیں وہیں مولوی طبقے کے حامی لبرلز کو چھوڑنے کے حامی نہیں۔ سارا معاملہ ڈالا ایک مولوی پر ایک انفرادی مثال کہہ کر لاتعلقی کا اظہار۔ مگر کیا یہ بس ایک انفرادی مثال ہے ؟؟؟؟ ہرگز نہیں۔۔۔  پچھلے کچھ دنوں سے سبوح سید اس معاملے کو سماجی روابط کی ویب گاہوں پر اٹھا رہے ہیں کہ مدارس میں کیاہورہا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ایک واقعہ نہیں ہے ایک بچہ نہیں ہے ۔۔ نجانے کتنے معصوم بچے ہوس پرست ملائوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔۔ جواب میں انکو مذہبی طبقے کی جانب سے مغلظات  بھی سننے کو مل رہے ہیں اور تعلیمی اداروں کی مثالیں بھی دی جا رہی ہیں۔  مسلئہ ہے کیا آخر؟؟؟؟؟؟  اگر آپ مولوی کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں تو مت بھولیئے کہ  تعلیمی اداروں میں بھی اساتذہ کے اپنے طلباء کو ہراساں کرنے ...

کرونا اور بھارت

کرونا  جب سے آیا ہے لا تعداد نظریات بھی ساتھ ساتھ آتے گئے شروعات چین کے شہر ووہان سے ہوئی تو پہلا نظریہ یہی سننے میں آیا کہ کسی لیبارٹری سے یہ وائرس پھیل گیا جس کے جواب میں چین کی جانب سے امریکی فوجیوں پر الزام لگایا گیا یہ وائرس انکے فوجی اس ملک میں لیکر آئے منصوبے کے تحت۔ چین نے ایسی کئی ویڈیوز بھی شائع کیں جس میں لوگ شاپنگ کارٹ سے لیکر سیڑھیوں کی ریلنگ اور بڑے اسٹورز میں شیلف میں رکھی پیک شدہ مصنوعات کی پیکنگ چاٹتے نظر آئے جسکا بظاہراسکے سوا کوئی مقصد نظر نہیں آتا کہ وہ خود اپنے اندر موجود جراثیم کو دنیا کی سیر کروانا چاہ رہے ہیں۔ ابھی سب نزلہ بخار  سانس اکھڑنے جیسی ٹی بی کی علامات سے گزر رہے تھے کہ ہلاکتیں شروع ہوگئیں تو ایک نیا نظریہ پیش کیا گیا جس کے مطابق یہ دراصل کوئی وائرس ہے ہی نہیں یہ تو تابکاری شعاعیں ہیں جو فائیو جی کی ٹیکنالوجی کی وجہ سے فضا میں پھیل رہی ہیں۔ فائیو جی دماغ کھول دینے والی ٹیکنالوجی ہے جس کے تحت انٹرنیٹ ایک بلا بن جائے گا۔ ابھی فور جی ٹیکنالوجی میں ہی ہم انٹرنیٹ کی تیز ترین رفتار سے محظوظ ہوتے ہیں فائیو جی اس سے بھی تیز رفتار ہوگا جسکی بدولت معلوما...