jamhoriat ki Alif bay
کالم کا نام : ج سے جمہوریت
مستقل نام : ایک اور رائے
کالم نگار : نازیہ زیدی
پاکستان میں ماشا اللہ سے سیاسی شعور اتنا بیدار ہو چکا ہے کہ عوام کسی ضروری کام سے سو رہی ہے والے سارے مزاحیہ خاکے ایک دم پرانے ہوگئے ہیں۔ بچہ بچہ دھرنا مارچ کیا ہوتا ہے نہ صرف جان چکا ہے بلکہ اس پر اپنی ماہرانہ رائے رکھتا ہے۔ مگر افسوس بچوں کی رائے سیاست میں سنی نہیں جاتی ۔ سیاست دانوں میں بھی جو بچے ہیں انکی نہیں سنی جاتی آخر بوڑھا اور بچہ برابر ہوتا ہے۔ تو پھر ان بچوں کو ایک طرف کر کے *بڑے* سیاست پر بات کرتے ہیں بچے یونہی دل پشوری کو ایک دو جملے بول کر نکل لیتے ہیں ٹاک شو سے۔ ان سے بس یہی کام لیا جاتا ہے ۔حکومت بنانے چلانے کا کام بڑوں کا ۔۔۔بچوں کو اپوزیشن سے نمٹنے پر لگا دیا جاتا ہے۔ یعنی پورے نظام کی الف بے ہی جن کو نہ پتہ ہو ان کا کام ہے نظام چلانا۔ سو میں نے سوچا کہ کم از کم الف بے تو بنا دوں پاکستانی جمہوریت کی کم از کم تھوڑی بنیادی معلومات تو ہوں اس نظام کے بارے ہیں۔ تو جناب پاکستان کی جمہوری الف بے شروع ہوتی ہے آ سے۔۔ آئین ہوتا ہے مگر پاکستان میں توڑتے مروڑتے ہی اسکا بس ذکر سننے میں آتا ہے اس پر عمل پیرا ہونا مفاد میں نہیں ہوا کرتا سو آئین کو عموما نصابی کتابوں کو ضخیم کرنے کا کام لیا جاتا ہے۔ آ سے آئی ایم ایف بھی ہوتا ہے۔ بہت برا ہوتا ہے اگر حکومت آئی ایم ایف کے پاس جائے۔ یہ ایک ایسی اصطلاح ہے جو حکومت کی برائی سمجھی جاتی ہے۔ مگر بس اس وقت تک جب تک آپ خود حکومت میں نہ ہوں۔خود ہوں تو ناگزیر ہوجاتا ہے آئی ایم ایف کے پاس جانا۔ ہاں تو آ سے آ بھی ہوتاہے۔ جانور ہنکانے کے لیئے آ آ کرنا کافی ہوتا عوام کو بھی ہنکانے کیلئے اس لفظ کا استعمال کیا جاتا ہے۔۔ آ یعنی آ ۔ آجا ۔۔ا سے الیکشن۔۔ عموما یہ عوام کو کہا جاتا ہے وہ بھی پانچ سال بعد کہ آ الیکشن میں۔ بس انکا اتنا ہی کام ہے آئیں اور الیکشن کا حصہ بنیں۔ ب سے پھر انکو کہا جاتا ہے۔ بس ۔۔یعنی آپکا کام ختم ہوا۔ا سے اپوزیشن بھی ہوتی ہے۔ اسکا کام حکومت کو غلط کاموں سے روکنا اور عوام کی نمائندگی کرنا ہوتا ہے مگر یہ تعریف جموریت میں ہوتی ہے۔ پاکستانی جمہوریت میں چونکہ جمہوریت ہی مقدار میں کم ہوتی ہے تو اپوزیشن کی اصطلاح میں سابقہ لگ جاتا ہے فرینڈلی کا۔ پاکستانی جمہوریت کی الف بے میں صرف اپوزیشن کا کوئی تصور نہیں۔ فرینڈلی اپوزیشن ہوتی۔ عموما یہ والی اپوزیشن جیل میں ہوتی ہے۔ اور چونکہ فرینڈلی اپوزیشن ہوتئ ہے اسلیئے جیل میں ہونے کے باوجود بھی جمہوریت کی گاڑی چلتی رہتی ہے۔ بھلے دھکا لگا کےچلے۔ ا سے بہت کچھ ہوتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ بھی ہوتئ ہے۔ یہ مقدس ہوتی ہے۔ اس سے ذیادہ پاک صاف جمہوریت میں کچھ نہیں ہوتا۔ یہاں تک کے جمہوریت میں جمہوریت بھی نہیں ہوتی۔ اسکے بعد آتا ہے ب سے برداشت کیجئے حکومت میں جو کچھ ہو۔ وہ بھی پانچ سال۔ اسکے بعد عادت ہو جاتی ہے۔ب سے سیاست دان بھی ہوتے ہیں ب سے سیاست دان ہونا صرف مرنے کے بعد ہی زندہ رکھتا ہے ۔ ب سے بم بھی ہوتا ہے۔ پہلے تو بارودی ہوتا تھا بہت ہلاکتیں ہوتی تھیں۔ یہ والے بم ایک ہی دفعہ میں قصہ تمام کرتے ہیں اب یہ والے بم خال خال ہی پھوٹتے ہیں۔ ان سے زیادہ تباہ کن بم کثرت سے پھوٹ رہے ہیں پچھلے دوسالوں میں۔ انکا اثر طویل المدتی ہوتا ہے۔ اس سے جان بھی فورا نہیں نکلتی یہ بم عوام کو تل تل مارنے کے کام آتے ہیں۔ ان بموں کے مختلف نام ہیں جیسے پیٹرول بم، چینی بم ، آٹابم وغیرہ۔ ب سے بحران بھی ہوتے ہیں۔ ان کو ٹالا جاتا ہے۔ اور ٹل جائیں تو دوبارہ باقائدہ دعوت دے کر بلائے جاتے ہیں۔ بحران ویسے تو اتنی جلدی نہیں آتے مگر پچھلے دو سالوں میں جتنی جلدی جلدی آئے لگتا ہے انکے موجودہ حکومت سے اچھے تعلقات بن گئے ہیں۔ خیر پھر آتا ہے پ۔ پ سے پاکستان ہی ہوتا ہے مگر پاکستان کا کیا حال ہوتا ہے سب کو معلوم ہی ہے پ سے پالیسیاں ہوتی ہیں انکو بنایا بھی جاتا ہے مگر ان پر عمل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ پ سے پاور بھی آپکے پاس ہو ورنہ پاور آپکے پاس نہیں رہتی۔پ سے ڈکٹیٹر بھی ہوتے ہیں۔۔ ت سے تابوت ہوتا ہے۔ تابوت عموما عوام کا ہوتا ہے یا ہمارے سرحد پر تعینات افواج پاکستان کا۔ تابوت سے پاکستانی عوام کی پرانی یاری ہے۔ اب تو عادت سی ہے ہم کو تابوت اٹھا اٹھا کے جینے کی۔ت سے تجزیہ نگار بھی ہوتے ہیں۔ کاش نا ہوتے۔ عموما تجزیہ نگار ہونے کیلئے کسی قسم کی معلومات اور تعلیم کا ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ ریٹائر ہونا ہی کافی ہوتا ہے۔ جو کچھ نہیں کرتا یا کچھ کرنے کے قابل نہیں ہوتا وہ تجزیہ نگار تو ہوتا ہی ہے۔ ت کے بعد ٹ آتا ہےٹ سے۔ ٹ سے کچھ نہیں ہوتا اور بہت کچھ ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست میں ٹ کا کام وہی ہے جمہوری الف بے میں جو پاکستان میں انصاف کا ہے۔ ہے بھی اور نہیں بھی۔ کیونکہ ٹ سے ہوتے ہیں ٹاک شوز۔ پہلے ٹاک شوز کا کام معلومات میں اضافہ ہوتا تھا اب ان کا کام معلومات سے عوام کو بچانا ہی رہ گیا ہے۔ٹاک شوزمیں نت نئی جہتیں متعارف ہوئی ہیں۔ پہلے باتیں ہوا کرتی تھیں۔اب ٹاک شوز میں کامیڈی ہوتی ہے ریسلنگ ہوتی ہے ڈرامہ ہوتا ہے سچ ہوتا ہے جھوٹ ہوتا ہے پٹواری ہوتے ہیں یوتھیئے ہوتے ہیں گالم گلوچ تک ہو جاتی ہے ٹاک شوز میں الغرض سب کچھ ہوتا سوائے مثبت بحث مباحثے کے۔ پھر باری آتی ہے ث کی۔ ث سے آج تک ثمر ہی ہوا ہے چاہے الف بے کوئی بھی ہو۔ ثمر ملتا صبر سے مگر عوام کو یہ آج تک نہیں ملا۔ خیر ج سے جیل ہوتی ہے۔جیل کا بنیادی مقصد تو مجرموں کو سزا دینا ہوتا ہے مگر آجکل سیاسی مخالفین دھڑا دھڑ بھیجے جاتے ہیں۔ اس میں مسلئہ ج کا ہے۔ ج سے جو بھی ہو جیل میں ہوتا ہے۔ ویسے چ بھی آتا ہے مگر چ سےہوتے ہیں چینل ان سے صرف چمچہ گیری کا کام لیا جاتا ہے۔ جو چینل اچھی رپورٹنگ کرتے ہیں بس وہی ہوتے ہیں۔باقی یا تو رہتے نہیں یا چلتے نہیں۔ اچھی رپورٹنگ یہاں چمچہ گیری کے مترادف کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ چمچہ گیری ایک قدیم اصطلاح ہے پہلے اسکا استعمال بادشاہوں کو خوش کرنے تک محدود تھا۔ اب بھی چمچہ گیر بادشاہوں کی چمچہ گیری کرتے ہیں مگر اب بادشاہت اصل میں کس کے پاس ہے اسکا اندازہ ان چمچہ گیروں کی ٹویٹس سے کیا جا سکتا ہے۔ چ سے چین بھی ہوتا ہے جو اگر نہیں ہوتا تو جانے کیا ہوتا۔ چین ہمارا د سے دوست ملک۔ہوتا ہے نہ ہوتا تو جانے ہم کہاں ہوتے۔ چین عموما پاکستانی سیاست میں ڈ سے ڈرانے کے کام آتا ، ا سے امداد لینے ، ق سے قرض لینے اور ف سے فائدے لینے کے کام آتا ہےچ سے چاند بھی ہوتا ہے مگر چاند صرف پوپلزئیوں کونظر آتا ہے اکثر وقت سے پہلے کبھی کبھی ایک سے ذیادہ دفعہ چاند بہت شرارتی ہوتا ہے۔اکثر ہوتا ہے نظر نہیں آتا چھپ جاتا ہے یا چھپا ہوتا ہے اور نظر آجاتا ہے۔ یہ چھپن چھپائی کا کھیل چاند نے پاکستان کیلئے مسلئہ بنا دیا ہے مگر خوشی کی بات یہ ہے کہ۔یہ مسلئہ بس عیدین پر ہی پیدا ہوتا ہے ورنہ باقی سال بنا چوں چراں کیئے چاند نظر آتا رہتا ہے۔۔روئیت ہلال کمیٹی حالانکہ اسی مقصد سے بنائی گئ ہے مگر اس سے چاند دیکھنے سے ذیادہ چاند دیکھ چکنے کا اعلان کرنے کا کام لیا جاتا ہے۔ یہاں چونکہ چ سے الفاظ محدود ہیں تو ہم ح سے حلوے پر آجاتے ہیں۔ حلوہ ایک میٹھا پکوان ہے جسے عموما ہم منسوب رکھتے ہیں مخصوص طبقے سے عموما حلوہ کھانے والے پیٹ پر چربی کی تہیں جمائے پھرتے ہیں اور سینے پر بوجھ لیئے۔۔ ح کے بعد آتا خ ۔خ سے بنتی خارجہ پالیسی ۔ یہ عموما ملک کے مفاد کیلئے بنائی جاتی ہے مگر اسکا د سے دارومدار بھی بنانے والے پر ہے۔ پاکستان میں خارجہ پالیسی کا مقصد کچھ بھی ہو سکتا ہے ملک کا مفاد ذرا نچلے درجے پر کہیں رہ جاتا ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی فی الحال تو د سے دوسروں کی کامیابیوں پر بغلیں بجانا اور ڈ سے ڈرتے ڈرتے بیان دیناہے۔د سے دھرنا بھی ہوتا ہے کبھی کامیاب دھرنا کبھی ناکام۔ دھرنے ویسے ذاتی رائے میں ناکام کبھی نہیں ہوتے۔ہان کامیاب بھی نہیں کہے جا سکتے۔ دھرنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے کیئے جاتے ہیں۔ دھرنے چھوٹے بڑے ہو سکتے۔انکے مقاصد بھی چھوٹے بڑے ہوتے۔دھرنے مفرور کروانے کے کام آتے ہیں اور مفرور ہونے کے بھی۔ کچھ دھرنے قوم کی حالت بگاڑنے کے کام بھی آتے۔دھرنے سے حکومت نہیں جاتی۔ مگر حکومت رہتی بھی نہیں۔ دھرنے میں لوگ پیسے دے کر لائے جاتے یا پیسےدے کر بھیجے جاتے۔ دونوں صورتوں میں نقصان پیسے کا ہوتا وہ بھی عوام کے۔ ڈ سے ڈھول ہوتا ہے۔۔ یہ بجتا ہے وہ بھی خود بجتا ہے۔ جلسوں میں بجتا ہے اور کبھی کبھی عوام کو بجاتا ہے اسکا استعمال آجکل اصطلاحی طور پر سوشل میڈیا میں ہی ہوتا ہے۔ ڈ کے بعد آتا ذ یہ عموما ذ سے ہوتی ہیں ذاتیات۔ ان پر حملہ کرنا سیاسی الف بے میں کافی اہم ہے۔ ذاتیات پر حملہ کیئے بنا آپ کو سیاست کرنا آہی نہیں سکتی۔سیاست کی کی ش ق ن ہی درست نہیں رہتے۔ ذ کی طرح اہم ملکی معاملات جیسے کہ ن ۔۔انہیں ن سے نظر انداز ہی کر دیئے جائیں بہترورنہ ن سے نا اہل بھی کیئے جا سکتے ہیں۔۔ر سے بہت کچھ ہوتا ہے عموما ر سے رات ہوتی ہے۔ یا راتوں رات کچھ ہوتا ہے۔ر سے ریلوے بھی ہوتئ ہے۔ر سے راولپنڈی ہوتا ہے۔ ر سے سب اہم الفاظ ہوتے ہیں ر نہ ہوتا تو ملک کی صورت حال کچھ اور ہی ہوتی۔ ڑ سے اڑا جاتا ہے۔ اسکو اڑان والا نا سمجھیں اڑا بلکہ ہٹ والا اڑ جانا سمجھیئے۔ اڑ جانے سے ملکی جمہوری الف ب زسب بدل جاتی ہے اڑ جانے پر اڑایا جا سکتا ہے خاص کر گھر کی منڈیر پر کوئی کوا اڑ کر بیٹھ جایا جائے تو اسکو اڑایا یا مزید اڑایا جا سکتا ہے۔ یہاں زیر زبر پیش حسب منشا استعمال کی جا سکتی ہے۔ پھر ز سے زار زار رویا اور رلایا جا سکتا ہے۔ ز سے کچھ بھاری بھرکم نام سیاست کا حصہ ہوتے ہیں یہ بظاہر نظر نہیں آتے مگر سچ یہ کہ یہ ہوتے ہیں ہر جگہ ہر وقت ایک ز سے بنتی آری سب پر پڑے بھاری۔ ز سے آری بنتی نہیں ویسے مگر پاکستانی سیاست کی الف بے ہے کچھ بھی ہو سکتا ۔ ان کا ہونا اچھا ہے اور ان کا نہ ہونا زیادہ اچھا ہے س سے سپریم کورٹ بھی ہوتی یے اورس سے سکون ہوتا پاکستانیوں کوتو نصیب نہیں ۔ س سے سیاست دان بھی ہوتے ہیں مگر ان سے پاکستانیوں کو زرا ہٹ کے زرا بچ کے ہی رکھنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ یہ عموما تباہیوں کے ذمے دار ٹھہرانے کے کام آتے ہیں۔ش سے بھی سیاست دان ہوتے ہیں مگر انکو پاکستان میں ذیادہ عرصہ رہنے نہیں دیا جاتا۔ کبھی منتیں کرکے کبھی، زبردستی باہر بھیجنے کے کام آتے ہیں۔۔ ش سے کچھ اور لوگ بھی ہوتے ہیں۔ جو شور و شر پھیلانے کے کام آتے ہیں۔ ۔ص سے صابن ہوتا ہے اسکا پاکستانی سیاست سے ہاتھ دھونے کا کام لیا جاتا۔یہ کام کرونا سے پہلے سے جاری و سارئ ہے کیونکہ ہم صاف قوم ہیں۔ص سے صحافی ہوتا ہے۔صحافی کا ہونا یا نہ ہونا منحصر ہوتا ہے عوامل پر۔ بہت سے صحافی عقلمند ہوتے ہیں۔ اور ہوتے بھی ہیں۔ یہ بہت اوپر ہوتے ہیں۔۔ بقیہ یا تو رہتے ہی نہیں یا ہوتے ہی نہیں اوپر۔۔۔۔۔یہ نیچے ہوتے۔۔کبھی کبھئ زمین سے بھی۔۔۔۔ ۔ض سے ضروری الف بے میں کچھ بھی نہیں۔ ط کا سیاسی الف بے میں وہی کام ہے جو پاکستانیوں کا چین اور انڈیا کے مابین معاملات بگڑنے میں ہے۔ جی ط سے طوطا ہوتا جو عموما ٹیں ٹیں کرتا ۔ ط سے اور کچھ ہوتا ہی نہیں۔ ظ سے ظرافت ہوتی ہے عموما اسکی رگ پھڑک اٹھتی ہےخاص کر سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کے پاس ہی یہ رگ ہوتی ہے۔ ظریف ٹویٹس ہوں یا ظریف خاکے سب کے سب حسب منشاء سیاست کرنے کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔پاکستانی سیاست کی الف ب میں عین غین بھی ہوتے ہیں۔انکا کام عین غین کرنا ہی ہوتا ہے۔ مزاق کر رہی ہوں۔ ع سے ہوتئ ہے عوام۔ عوام غ سے غبی ہوتی ہے۔ اسکا کام صرف سہنا ہوتا ہے۔ اسکا کوئی دوست نہیں ہوتا عوام ہوتئ ہے یہ نہیں کہ جمہوری الف بے میں اسکا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ اسکا کردار ایکسٹرا کا ہوتا ہے۔ ان سے ووٹ ڈالنے کا کام لیا جاتا پھر ووٹ کی عزت کروانا بھی انہی کی ذمہ داری ہوتا ہے۔ ف سے پاکستانی سیاست چلتی رکتی رڑھتی ہے۔ ف مطلب ہوتا ہے مطلق العنانیت۔ ف سے کاروبار ہوتا ہے ، ف سے ملک کا نظام بھی چلتا ہے ف پرسیاست کی الف بے ہی ختم ہو جاتی ہے۔ق ک گ ل م ن و ہء ی ے سب لایعنی ہو جاتے ہیں۔مجھے امید ہے اب کم از کم آپکو سیاست کی الف ب تو آگئ ہوگی۔ الف بے آجائے تو لکھنا آسان ہو جاتا ہے۔ پھر لکھتے لکھتے ہاتھ رک جاتا ہے اور لکھنے پر پیسا بھی ملتا ہے۔ اتنا کہ گاڑی آجاتی ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں