کمار اور کماری
کالم کامستقل نام : ایک اور رائے
موجودہ کالم کا نام: کمار اور کماری
مصنف کا نام: نازیہ زیدی
نیپال میں ایک طویل عرصے سے ایک رواج ہے کماری کا۔ یہ رسم نیپال کی بہت سی مزہبی رسومات میں سے ایک ہے۔
کچھ عرصہ قبل بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی نے اس پر مکمل رپورٹ تیار کی تھی جو میں نے دیکھی۔ اور میرے زہن کے کسی کونے میں دفن بھی ہوگئ۔ آج یاد آئی کیوں آخر میں بتائوں گی۔تو۔ رسم کا نام ہے کماری۔ہوتا کچھ یوں ہے کہ نیپال کے معزز اور مزہبی گھرانوں میں سے ایک نوزائدہ بچی کو چن کر خطاب دیا جاتا ہے کماری کا۔اور پھر وہ بچی اعلی درجے کے مندر کو سونپ دی جاتی ہے۔ اس مندر میں اس بچی کی پرورش راجکماریوں کی طرح کی جاتی ہے اسکیلئے اونچی زات کا پنڈت یا مجاور جو بھی اس مندر سے منسلک ہو اسکا خدمت گار ہوتا ہے۔جواس بچی کے اٹھنے بیٹھنے سونے جاگنے کھانے پینے کا خیال رکھتا ہے۔ اس بچی کے پیر زمین پر لگنا بد شگونی سمجھا جاتا یے۔ روز اس بچی کو سجا سنوار کر اونچے سنگھاسن پر بٹھا دیا جاتا ہے جہاں اسکا سارا دن واسطہ عقیدت مندوں سے پڑتا ہے جو اسکے قدموں کو چھو کر اپنے اچھے نصیب کیلئے اس سے آشیرباد یا دعا طلب کرتے ہیں۔بچی سارا دن سج سنور کر آنے والوں کو تبرک بانٹتی ہے سر پر ہاتھ رکھ کر اپنی نیک تمنائیں دیتی ہے۔ صرف ایک قصبے یا شہر کی بات نہیں سب سے اعلی درجے کی کماری جو کہ نیپال کی حکومت کے سرپرست مندر سے منسلک ہو تو پورا ملک اس بچی کو دیوی مان کر پوجتا ہے۔تہواروں پر جب سب بچے کھیلتے کودتے نئے کپڑے پہن کر چیزیں کھاتے کھلاتے نظر آتے ہیں یہ کماری بچپن کی سب ننھی منی خواہشوں کو دباتی کھیل کود سے بے نیاز اپنا بچپن کا سنہرا دور بھگتوں کو آشیر واد دیتے گزارتی ہے۔ اس بچی کو مندر میں رکھا جاتا ہے تو ظاہر ہے اسکے والدین بہن بھائی بھی اس سے ملاقات وقت کے وقت ہی کر پاتے ہیں۔یوں عام بچوں کے برعکس یہ بچی تنہا اور دنیاوی ہر شے سے کٹ کر تارک الدنیا کی سی زندگی گزارتی ہے۔ کماری رسم کے اوائل میں یہ بھی رواج تھا کہ کماری کو دنیاوی تعلیم سے بھی دور رکھا جاتا تھا۔دوست سہیلی کیا ہوتے ایسی بچی نہیں جانتی۔ مگر کیا اسکی ساری زندگی بھگتوں کا ناچ دیکھتے انہیں آشیر باد دیتے گزر جاتی ہے؟
جواب ہے نہیں۔ یہ شاہانہ مگر قابل رحم طرز زندگی اسے بس اس وقت تک سہنا ہے جب تک وہ بالغ نہیں ہو جاتی ہے۔ بچی کے لڑکپن کو چھوتے ہی اس سے یہ خطاب واپس لے لیا جاتا ہے۔ اسے نجس سمجھتے ہوئے اس دنیا کی عام سی لڑکی بنا دیتے ہیں۔ یہ عام سی لڑکی اپنے والدین کے گھر میں اپنی عام سی زندگی شروع کرتی ہے اور کسی اور اونچے گھرانے کی کسی اور بچی کو کماری چن لیا جاتا ہے۔ اب اس بچی کا حال کیا ہوتا ہے جو دنیا میں بالغ ہو کر واپس آئی ہے نہ دنیا کے گورکھ دھندے کی خبر نہ ہی کوئی علم و ہنر سے آراستہ۔ اس لڑکی کیلئے زندگی کے راستے محدود ہیں۔اس لڑکی کو کماری کا درجہ چھنتے ہی منحوس کا درجہ مل جاتا ہے اور اس سے شادی کرنا بد بختی سمجھا جاتا ہے۔ایسا بھی ہوا ہے کہ ماضی کی کماری کی بقیہ زندگی جسم فروشی یا بھیک مانگتے گزری۔تاہم اب جدید دور کی مناسبت سے کماری کو مندر کے اندر ہی تعلیم دینے کا اہتمام کیا جاتا ہے مگر اسکے باوجود پچھلے کچھ سالوں کی کماریاں اپنی زندگی سے خوش نظر نہیں آتیں۔ ایک کماری کا کہنا تھا کہ پچھلی زندگی اسے سہانہ خواب محسوس ہوتی ہے اور اسے جدید دور میں دنیا کے ساتھ قدم بڑھاتے بہت دشواریوں کا سامنا رہا جن میں اچھی نوکری ، اچھا رشتہ نہ ملنا اور لوگوں سے ٹاکرا نہ ہونے کے باعث انکی چالاکیاں سمجھ میں نہ آئیں اور دھوکے بھی کھائے۔
یوں آٹھ دس یا بارہ چودہ سال کی قابل رشک حد تک خدمت لینے کے بعد کماری راجکماری کے سنگھاسن
سے اٹھا کر زمین پر پٹخ دی جاتی ہےمجھے
کماری کیوں آج یاد آگئ؟ مجھے ایسے یاد آگئ کہ مجھے کچھ اسی سے ملتے جلتے حالات و واقعات پاکستان میں نظر آئے۔
پچھلے کچھ سالوں سے پاکستان میں بھی اسی رسم کا اعادہ کیا گیا ہو جیسے۔ معاملہ کرپشن کا نکلے یا شادیوں کا صادق و امین سمجھا جائے یا ہینڈسم اور تعلیم یافتہ عمران خان صاحب کو اونچے سنگھاسن پر بٹھایا گیا ہے جہاں انکے مداح انکے افکار خیالات ، جرات مندانہ اقدامات اور جوش خطابت کی مدح سرائی میں مصروف نظر آتے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا ہو یا سوشل میڈیاانکی شہرت و عزت کو چار چاند لگے ہیں۔یہاں تک کے 2013 میں محض تین سے چار مہینے کی حکومت میں خاطر خواہ تبدیلی نظر نہ آنے کی صورت میں عوام سراپا احتجاج تھئ ڈی چوک پر 126 دن دھرنہ دے کر مہنگائی، کرپشن اور دہشت گردی کے خلاف سراپا احتجاج رہی امپائر سے لیکر ۔۔۔ انکو کس کس کی حمایت نہ میسر رہی۔سچ کہا جائے تو نواز شریف حکمران ہوتے ہوئے بھی انکے مقابلے میں کمزور نظر آئے۔مگر وہی عوام سال بھر کا تکلیف دہ مہنگائی کا دور گزار کر بھی انکو وقت دیا جانا چاہیئے کہہ کررعائت دیتی نظر آتی ہے
انکی نیک نیتی تھی یا عوام کا ان پر عقیدت کا اظہار کہ 2018 میں انکو حکومت کی باگ ڈور ملی ، اس بار انکو ان مسائل کا سامنا بھی نہیں ہوا جو پچھلی حکومت کو ورثے میں ملے تھے۔لوڈشیڈنگ ختم، ڈالر کی قدر منجمد کرپشن کے سب مجرمان جیل میں دہشت گردی مناسب حد تک کم عوام مہنگائی پر اب گھروں سے نہیں نکلتی اور جو نکلتی ہے اسکو اتنی چھوٹ نہیں دی جارہی کہ بے وجہ دھرنے توچھوڑ، جلسے بھی کرے ۔ میڈیا ان فالتو احتجاجوں کو خاطر میں نہیں لاتا اور بھر پور طریقے سے امریکہ میں ہمارے وزیر اعظم کی مقبولیت کے ڈنکے بجا رہا ہے انکے جلسوں انکے انٹرویوز کو سارا سارا دن نشر کر رہا ہے ان کو عوام کے سب سے اہم مسائل جیسے کہ جیل میں وی آئی پی کرپشن کے قیدیوں سے ٹی وی اور اے سی کی سہولت چھین لینا ، امریکہ سے امداد لینے نہ لینے کا اختیار رقم بتا کرامداد مانگنے کی بجائے انکی خوشی سے وہ جتنا دے دیں اس پر راضی ہونا اور سب سے بڑھ کر عافیہ صدیقی کی رہائی پر بات کرنے کی یقین دہانی۔بین القوامی میڈیا میں اس بات کا اعتراف کرنا کہ اسامہ بن لادن کو آئی ایس آئی نے ڈھونڈ کر سی آئی اے کو پتہ دیا تھا گواہ ہیں اس بات کے کہ۔یقینا وہ عوامی مسائل سے نہ صرف آگاہ ہیں بلکہ انکا حل نکال کر ہی لوٹیں گے۔ اس سب سے یوں لگتا کہ عمران خان کا عروج ہے یہ۔ہمارا خوبصورت سمجھدار پڑھا لکھا وزیر اعظم یقینا اس سب ستائش و پرستش کا حقدار ہے جو اسے مل رہی ہے اس اعتماد کی صورت جس کا اظہار انکا یہ بیانیہ کرتا ہے کہ اس وقت فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں۔مگرمجھے بس تھوڑا سا یہ ڈر ہے کہ جیسے کماری کو اتنا پوجنے کے بعد عوام ایکدم اسکے بالغ ہونے پر یونہی سنگھاسن سے اتار کر کسی اور کو یہ جگہ دے دیتے ہیں کہیں خان صاحب کے سیاسی بلوغت کا دور شروع ہوتے ہی ۔۔۔ خدا نہ کرے مگر ڈالر کی بڑھتی قیمت ،مہنگائی کا بے قابو جن اور بھارت کا اس دورے کے حوالے سے پاک امریکہ مشترکہ پریس کانفرنس کے جواب میں رویہ دیکھتے ہوئے اگر عوام نے خان صاحب کے فرمودات پر چلتے ہوئے احتجاج کرنا شروع کردیا تو۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟
موجودہ کالم کا نام: کمار اور کماری
مصنف کا نام: نازیہ زیدی
نیپال میں ایک طویل عرصے سے ایک رواج ہے کماری کا۔ یہ رسم نیپال کی بہت سی مزہبی رسومات میں سے ایک ہے۔
کچھ عرصہ قبل بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی نے اس پر مکمل رپورٹ تیار کی تھی جو میں نے دیکھی۔ اور میرے زہن کے کسی کونے میں دفن بھی ہوگئ۔ آج یاد آئی کیوں آخر میں بتائوں گی۔تو۔ رسم کا نام ہے کماری۔ہوتا کچھ یوں ہے کہ نیپال کے معزز اور مزہبی گھرانوں میں سے ایک نوزائدہ بچی کو چن کر خطاب دیا جاتا ہے کماری کا۔اور پھر وہ بچی اعلی درجے کے مندر کو سونپ دی جاتی ہے۔ اس مندر میں اس بچی کی پرورش راجکماریوں کی طرح کی جاتی ہے اسکیلئے اونچی زات کا پنڈت یا مجاور جو بھی اس مندر سے منسلک ہو اسکا خدمت گار ہوتا ہے۔جواس بچی کے اٹھنے بیٹھنے سونے جاگنے کھانے پینے کا خیال رکھتا ہے۔ اس بچی کے پیر زمین پر لگنا بد شگونی سمجھا جاتا یے۔ روز اس بچی کو سجا سنوار کر اونچے سنگھاسن پر بٹھا دیا جاتا ہے جہاں اسکا سارا دن واسطہ عقیدت مندوں سے پڑتا ہے جو اسکے قدموں کو چھو کر اپنے اچھے نصیب کیلئے اس سے آشیرباد یا دعا طلب کرتے ہیں۔بچی سارا دن سج سنور کر آنے والوں کو تبرک بانٹتی ہے سر پر ہاتھ رکھ کر اپنی نیک تمنائیں دیتی ہے۔ صرف ایک قصبے یا شہر کی بات نہیں سب سے اعلی درجے کی کماری جو کہ نیپال کی حکومت کے سرپرست مندر سے منسلک ہو تو پورا ملک اس بچی کو دیوی مان کر پوجتا ہے۔تہواروں پر جب سب بچے کھیلتے کودتے نئے کپڑے پہن کر چیزیں کھاتے کھلاتے نظر آتے ہیں یہ کماری بچپن کی سب ننھی منی خواہشوں کو دباتی کھیل کود سے بے نیاز اپنا بچپن کا سنہرا دور بھگتوں کو آشیر واد دیتے گزارتی ہے۔ اس بچی کو مندر میں رکھا جاتا ہے تو ظاہر ہے اسکے والدین بہن بھائی بھی اس سے ملاقات وقت کے وقت ہی کر پاتے ہیں۔یوں عام بچوں کے برعکس یہ بچی تنہا اور دنیاوی ہر شے سے کٹ کر تارک الدنیا کی سی زندگی گزارتی ہے۔ کماری رسم کے اوائل میں یہ بھی رواج تھا کہ کماری کو دنیاوی تعلیم سے بھی دور رکھا جاتا تھا۔دوست سہیلی کیا ہوتے ایسی بچی نہیں جانتی۔ مگر کیا اسکی ساری زندگی بھگتوں کا ناچ دیکھتے انہیں آشیر باد دیتے گزر جاتی ہے؟
جواب ہے نہیں۔ یہ شاہانہ مگر قابل رحم طرز زندگی اسے بس اس وقت تک سہنا ہے جب تک وہ بالغ نہیں ہو جاتی ہے۔ بچی کے لڑکپن کو چھوتے ہی اس سے یہ خطاب واپس لے لیا جاتا ہے۔ اسے نجس سمجھتے ہوئے اس دنیا کی عام سی لڑکی بنا دیتے ہیں۔ یہ عام سی لڑکی اپنے والدین کے گھر میں اپنی عام سی زندگی شروع کرتی ہے اور کسی اور اونچے گھرانے کی کسی اور بچی کو کماری چن لیا جاتا ہے۔ اب اس بچی کا حال کیا ہوتا ہے جو دنیا میں بالغ ہو کر واپس آئی ہے نہ دنیا کے گورکھ دھندے کی خبر نہ ہی کوئی علم و ہنر سے آراستہ۔ اس لڑکی کیلئے زندگی کے راستے محدود ہیں۔اس لڑکی کو کماری کا درجہ چھنتے ہی منحوس کا درجہ مل جاتا ہے اور اس سے شادی کرنا بد بختی سمجھا جاتا ہے۔ایسا بھی ہوا ہے کہ ماضی کی کماری کی بقیہ زندگی جسم فروشی یا بھیک مانگتے گزری۔تاہم اب جدید دور کی مناسبت سے کماری کو مندر کے اندر ہی تعلیم دینے کا اہتمام کیا جاتا ہے مگر اسکے باوجود پچھلے کچھ سالوں کی کماریاں اپنی زندگی سے خوش نظر نہیں آتیں۔ ایک کماری کا کہنا تھا کہ پچھلی زندگی اسے سہانہ خواب محسوس ہوتی ہے اور اسے جدید دور میں دنیا کے ساتھ قدم بڑھاتے بہت دشواریوں کا سامنا رہا جن میں اچھی نوکری ، اچھا رشتہ نہ ملنا اور لوگوں سے ٹاکرا نہ ہونے کے باعث انکی چالاکیاں سمجھ میں نہ آئیں اور دھوکے بھی کھائے۔
یوں آٹھ دس یا بارہ چودہ سال کی قابل رشک حد تک خدمت لینے کے بعد کماری راجکماری کے سنگھاسن
سے اٹھا کر زمین پر پٹخ دی جاتی ہےمجھے
کماری کیوں آج یاد آگئ؟ مجھے ایسے یاد آگئ کہ مجھے کچھ اسی سے ملتے جلتے حالات و واقعات پاکستان میں نظر آئے۔
پچھلے کچھ سالوں سے پاکستان میں بھی اسی رسم کا اعادہ کیا گیا ہو جیسے۔ معاملہ کرپشن کا نکلے یا شادیوں کا صادق و امین سمجھا جائے یا ہینڈسم اور تعلیم یافتہ عمران خان صاحب کو اونچے سنگھاسن پر بٹھایا گیا ہے جہاں انکے مداح انکے افکار خیالات ، جرات مندانہ اقدامات اور جوش خطابت کی مدح سرائی میں مصروف نظر آتے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا ہو یا سوشل میڈیاانکی شہرت و عزت کو چار چاند لگے ہیں۔یہاں تک کے 2013 میں محض تین سے چار مہینے کی حکومت میں خاطر خواہ تبدیلی نظر نہ آنے کی صورت میں عوام سراپا احتجاج تھئ ڈی چوک پر 126 دن دھرنہ دے کر مہنگائی، کرپشن اور دہشت گردی کے خلاف سراپا احتجاج رہی امپائر سے لیکر ۔۔۔ انکو کس کس کی حمایت نہ میسر رہی۔سچ کہا جائے تو نواز شریف حکمران ہوتے ہوئے بھی انکے مقابلے میں کمزور نظر آئے۔مگر وہی عوام سال بھر کا تکلیف دہ مہنگائی کا دور گزار کر بھی انکو وقت دیا جانا چاہیئے کہہ کررعائت دیتی نظر آتی ہے
انکی نیک نیتی تھی یا عوام کا ان پر عقیدت کا اظہار کہ 2018 میں انکو حکومت کی باگ ڈور ملی ، اس بار انکو ان مسائل کا سامنا بھی نہیں ہوا جو پچھلی حکومت کو ورثے میں ملے تھے۔لوڈشیڈنگ ختم، ڈالر کی قدر منجمد کرپشن کے سب مجرمان جیل میں دہشت گردی مناسب حد تک کم عوام مہنگائی پر اب گھروں سے نہیں نکلتی اور جو نکلتی ہے اسکو اتنی چھوٹ نہیں دی جارہی کہ بے وجہ دھرنے توچھوڑ، جلسے بھی کرے ۔ میڈیا ان فالتو احتجاجوں کو خاطر میں نہیں لاتا اور بھر پور طریقے سے امریکہ میں ہمارے وزیر اعظم کی مقبولیت کے ڈنکے بجا رہا ہے انکے جلسوں انکے انٹرویوز کو سارا سارا دن نشر کر رہا ہے ان کو عوام کے سب سے اہم مسائل جیسے کہ جیل میں وی آئی پی کرپشن کے قیدیوں سے ٹی وی اور اے سی کی سہولت چھین لینا ، امریکہ سے امداد لینے نہ لینے کا اختیار رقم بتا کرامداد مانگنے کی بجائے انکی خوشی سے وہ جتنا دے دیں اس پر راضی ہونا اور سب سے بڑھ کر عافیہ صدیقی کی رہائی پر بات کرنے کی یقین دہانی۔بین القوامی میڈیا میں اس بات کا اعتراف کرنا کہ اسامہ بن لادن کو آئی ایس آئی نے ڈھونڈ کر سی آئی اے کو پتہ دیا تھا گواہ ہیں اس بات کے کہ۔یقینا وہ عوامی مسائل سے نہ صرف آگاہ ہیں بلکہ انکا حل نکال کر ہی لوٹیں گے۔ اس سب سے یوں لگتا کہ عمران خان کا عروج ہے یہ۔ہمارا خوبصورت سمجھدار پڑھا لکھا وزیر اعظم یقینا اس سب ستائش و پرستش کا حقدار ہے جو اسے مل رہی ہے اس اعتماد کی صورت جس کا اظہار انکا یہ بیانیہ کرتا ہے کہ اس وقت فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں۔مگرمجھے بس تھوڑا سا یہ ڈر ہے کہ جیسے کماری کو اتنا پوجنے کے بعد عوام ایکدم اسکے بالغ ہونے پر یونہی سنگھاسن سے اتار کر کسی اور کو یہ جگہ دے دیتے ہیں کہیں خان صاحب کے سیاسی بلوغت کا دور شروع ہوتے ہی ۔۔۔ خدا نہ کرے مگر ڈالر کی بڑھتی قیمت ،مہنگائی کا بے قابو جن اور بھارت کا اس دورے کے حوالے سے پاک امریکہ مشترکہ پریس کانفرنس کے جواب میں رویہ دیکھتے ہوئے اگر عوام نے خان صاحب کے فرمودات پر چلتے ہوئے احتجاج کرنا شروع کردیا تو۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں