تیری گلیاں اور گالیاں
میرا دوسرا کالم 🤩
مستقل کالم عنوان : ایک اور رائے
کالم عنوان : تیری گلیاں اور گالیاں
مصنفہ : نازیہ زیدی
گالی فنون لطیفہ کی اہم شاخ ہے ۔ یہ انسان کی حس لطیف کی تسکین کیلئے ایجاد کی گئ تھی۔یہ انسان کے غم و غصے کی وہ ترجمان کیفیت ہے جس سے انسان کے اخلاق و کردار کا تعین ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر گالی اس لفظ بات یا صفت کو کہتے ہیں جو دینے والا آپ میں دیکھ کر آپکو غصے میں کہتا اور گالی کھانے والا اپنے آپ میں دیکھ کر یہ سمجھتے ہوئے کہ ہاں بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی بھڑک اٹھتا۔۔ مثال کے طور پر عموما غصے میں لوگ کسی انسان کو کتا کہہ ڈالتے ہیں ، کتا کہلایا جانے والا انسان جوابا بھونک ضرور اٹھتا مگر سچی بات کبھی میں نے کسی انسان کو کسی کو غصے میں انسان کہتے نہیں سنا۔اگر کسی کو کہہ دو تو وہ برا بھی نہیں مانتا ویسے برا ماننے کی صفت بھی انسانی ہی ہے کسی کتے کو انسان کہہ بھی دیں تو جوابا وہ اسی طرح بھونکے گا جیسے کتا کہلائے جانے پر بھونکتا ہے۔ یعنی کتے کو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا اسے انسان کہا یا سمجھا جائے۔ آزمائش شرط ہے
گالی دینا عموما گالی دینے والے کا ہی کام ہوتا گالی دینا ہر کسی کے بس کی بات بھی نہیں ۔گالیاں سب کو یاد بھی آسانی سے نہیں ہوتیں۔گالی وقت اور حالات کو مد نظر رکھ کر دی جاتی ہے۔ گالی دینا ہمت کا کام ہے۔ کیونکہ گالی دے کر آپ دوسرے کے سارے حواس مختل کر دیتے جوابا اسکی جانب سے کسی قسم کے ردعمل کا بھی سامنا ہو سکتا ہے۔ عموما گالی سن کر ردعمل دینا اتنا ہی آسان ہوتا ہے جتنا امریکہ کیلئے کسی ملک پر دہشت گردی کا الزام لگانا اور گالی سن کر خاموش رہنا اتنی ہی مشکل ہوتا جتنا بھارت میں ہندو اکثریتی علاقے میں رہ کر گائے کا گوشت کھانا۔ گالی دینا ایک فن ہوتا ہے اردو والا ۔ گالی دینا انگریزی والا فن بھی ہوتا ۔ گالی دے کر آپ کسی کو گالی دینے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ گالی دے کر زہنی سکون حاصل ہوتا ہے کہ اب اگلا بھی اتنا ہی غصہ محسوس کر رہا ہے جتنا کہ آپ۔ گالی ضروری نہیں کہ آپ گندی ہی دیں۔ گالیاں دیناانسان پر منحصر ہے۔ اچھے الفاظ بھی کچھ انسانوں کے منہ سے گالی کی طرح ہی ادا ہوتے ہیں۔اتنا ہی منفی اثر رکھتے جتنا کسی گالی والے الفاظ۔گالی پر وقت و حالات کا بھی اثر ہوتا ہے۔ کچھ حالات میں گالی دینا ناگزیر ہوتا ہے جیسے اگر آپ پاکستانی کرکٹ ٹیم کی ورلڈ کپ کی کارکردگی پر گھر میں بیٹھ کر تبصرہ کر رہے ہوں گالی پر جگہ کا بھی اثر ہوتا ہے مثال کے طور پر سیلیکٹڈ لفظ ہی دیکھ لیں۔اسکو انگریزی میں گالی نہیں سمجھا جاتا عموما کسی کو سیلیکٹڈ کہو تو وہ خوشی سے پاگل ہو اٹھتا ہے خاص طور پر اگر اسے نوکری ملی ہو مگر اگر یہی لفظ نوکری ملنے پر ہی پارلیمان کے اندر ادا کیا جائے تو گالی تصور ہوتا ہے۔ اسکے استعمال پر پابندی لگ جاتی ہے ۔یعنی کچھ لفظ گالی بزات خود نہیں ہوتے مگر وقت ، حالات و جگہ کے باعث گالی تصور کیئے جاتے ہیں۔اسی طرح نا اہل نا لائق بھی اردو کے معصوم الفاظ سمجھے جاتے تھے کل تک۔ مگر جب سے مریم نواز نے ادا کیئے ہیں گالی کی طرح چبھتے ہیں۔ اتنا تو برا سچ مچ نا اہل کر دیئے جانے والے وزیر اعظم نے اسکے حامیوں نے نہیں مانا جتنا محض کہلائے جانے پر موجودہ وزیر اعظم کے حامی برا مان رہے ہیں۔ گالی سن کر برا ماننا بھی ایک فن ہے ۔ اردو والا۔ ہر کوئی برا بھی نہیں مان سکتا ہر کسی کو برا مان جانے کا حق ہی نہیں ملتا۔ گالیاں عموما دو طرح کی ہوتی ہیں بڑی گالیاں چھوٹی گالیاں ۔بڑی گالیاں وہ ہیں جو یہاں درج ہونے کے باعث اخبار کی پالیسی کے مطابق سنسر ہوگئیں۔ چھوٹی وہ ہیں جو مجھے نہیں آتیں تو یہاں لکھی ہی نہیں جا سکی ہیں ۔گالیاں اچھی بری نہیں ہوتیں۔ گالیاں دینے والے اچھے برے ہو سکتے ہیں۔ گالیاں سن کر شریف ہی چپ رہ سکتا ہے۔ گالیاں سن کر باقی سب ردعمل ضرور دیتے ہیں۔لیکن اگر آپکا تعلق موجودہ حکمران جماعت سے ہے تو گالی نا بھی دی گئ ہو تو بھی سخت ردعمل دے سکتے ہیں۔ قومی چینل پر ہاتھا پائی کی نوبت آسکتی ہےہاتھا پائی کی نوبت اس سے قبل گلی محلوں کا ہی خاصہ تھی مگر اسکی شہرت دیکھ کر لگتا ہے کہ جلد اسے قومی شناختی علامت قرار دیا جائے گا۔ اس سے قبل گالیاں بھی ٹی وی پر کم گلی محلے میں زیادہ سننے کو ملا کرتی تھیں۔ایک احمقانہ تصور تھا کہ گالیاں گلیوں میں دی جا تی ہیں وہ بھی اپنی گلی میں۔جہاں چار لوگ آپکے ساتھ مل کر گالیاں دینے والے ہوں۔تاکہ کوئی آپکا کچھ بگاڑ نا سکے اب گالیاں سماجی روابط کی ویب گاہوں پر بھی دی جا سکتی ہیں۔ وہاں چار لوگ آپکے ساتھ مل کر گالیاں نا بھی دیں تو بھی آپکا کچھ بگاڑا جا نہیں سکتا۔ گالیاں فیس بک پر دینی چاہیئیں۔ وہاں یہ آزادی ہے کہ گالیاں آپ اسکے بانی کو بھی دے سکتے ہیں۔
یہ آزادی ویسے فیس بک کے علاوہ بھی کئی جگہوں پر ہے چلیں چھوڑیں۔ میں نے گزشتہ کالم میں وعدہ کیا تھا فیس بک پر گالیاں دینے کے 101 فائدے بتائوں گی۔
تو میں نہیں بتا رہی۔ بری بات گالی نہیں دیتے۔میں نے کہا کہ 101 فائدے نہیں بتا رہی ہاں فائدے بتا رہی ہوں انکو ضرب دے کر 101 کیئے جا سکتے ہیں۔
۔فیس بک پر گالی دینے کا رواج اتنا ہی پرانا ہے جتنی فیس بک خود ہےپہلی گالی یقینا مارک زکربرگ نےہی دی ہوگی اور آخری کے بارے میں بھی قوی یقین ہے کہ اسے ہی پڑی ہوگی۔خیر بات ہورہی تھی گالی کے فوائد پر۔فیس بک پر گالی دینے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ جوابا آپکو گالی بھی فیس بک پر ہی ملے گی۔جو اطلاع کی صورت ملے گی اطلاع کھول لی تو خون کھول سکتا نا کھولی تو سب خیریت ہے۔ ایک اور فائدہ یہ ہے کہ گالیاں دلائل کی عدم دستیابی کی صورت میں قاتل بحث ثابت ہوتی ہیں فیس بک پر اگر آپ کسی سیاسی بحث میں الجھے ہیں تو جواب نا ہونے کی صورت میں اگر آپ نے بڑی گالی دی تو دوسری جانب سے خاموشی کی صورت میں آپ بحث جیت گئے اگر دوسری جانب سے بڑی گالی آگئ تو آپکا اتنا کہنا ہی کافی ہوگا کہ آپ جیسے گالی دان انسان سے بات کرنامناسب نہیں یوں آپ بحث میں ہارتے ہارتے بھی جیت جائیں گے۔گالی حکومتی اقدامات کے نتیجے میں پیٹرول کی بڑھتی قیمت ، روپے کی گھٹتی قدر اور مہنگائی کے طوفان پر ردعمل دینے میں بھی کام آتی ہے۔لمبے لمبے تبصروں کی بجائے سادہ سی گالی نا صرف دل ٹھنڈا کرتی ہے بلکہ سیاسی مخالفین کا کلیجہ سڑانے کے بھی کام آتی ہے۔فیس بک پر گالی کسی کو مزہبی اختلاف پر ، سیاسی اختلاف پر ، ذاتی اختلاف پر ، سماجی اختلاف پر، اختلاف برائے اختلاف پر کسی بھی انسان ، اسکے خاندان ، سیاست دان، معیشت دان، سائنسدان، پاندان ، اگالدان ، شمع دان وغیرہ کو دی جاسکتی ہے منہ بھر بھر کر دی جاسکتی ہے مگر یاد رہے خلائی مخلوق کو دینا سختی ہے منع ہے ۔ آپکے خلاف قانونی اخلاقی یا بنا کسی عنوان کے پوشیدہ کاروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔ یہ آسمانی مخلوق ہوتی ہے اسکی رسائی دنیا تک آسان ہوتی ہے۔ گالی دینا آپکے کول ہونے کی نشانی ہے ۔ یہ آپکے اسٹیٹس ( موجودہ حالت پر مبنی مراسلے )کو چار چاند لگا دیتی ہے۔گالی اگر انگریزی میں دی جا رہی تو آپکے پڑھے لکھے اچھے خاندان سے ہونے کی علامت سمجھی جاتی ہے وہیں اردو یا پنجابی میں گالیاں دینے سے آپکو اسکے الٹ سمجھا جائے گا ۔ سو فیس بک پر کوشش کیجئے کہ انگریزی میں گالیاں دیں۔ ویسے بھی اردو میں گالی گالی ہی نہیں لگتی۔ مثال کے طور پر الیکٹڈ یا سیلیکٹڈ کوہی لے لیں۔ دونوں کو اردو میں منتخب ہی کہا جاتا ہے۔ مگر منتخب وزیر اعظم کی اصطلاح تو پارلیمنٹ میں حکومتی ارکان بھی استعمال کرتے ہیں۔ لیکن سلیکٹڈ کی ممانعت ہے۔ سن کر برا ہی مان جاتے ہیں۔ گالی بڑے بڑے لوگ دیتے ہیں۔ گالی چھوٹے بھی دے سکتے ہیں۔ گالی چھوٹا بڑا نہیں بناتی ہاں چھوٹی بڑی گالی آپکو چھوٹا بڑا بنا سکتی ہے۔ نہیں سمجھ آئی؟ گالی۔۔۔ اب آجائے گی۔ گالی دینے سے آپکو پیسے بھی مل سکتے ہیں۔ایسی ویڈیوز بنائیں جس میں آپ کسی کو منہ بھر بھر کر گالیاں دے رہے ہوں تو آپ کو جوابا کسی کی جانب سے منہ بھر بھر کر گالیاں ملیں گی اب جسکو آپ نے گالی دی وہ اگر آپ سے زیادہ مشہور ہے تو یقینا اسکے آپکو جوابا ردعمل دینے سے اسکے پیروکار لوگ آپکی ویڈیو دیکھنے آئیں گے کہ بھلا آپ کون ہیں یوں گالیاں دینے والے؟ یوں کچھ گالیاں دے کر کچھ گالیاں کھا کر آپ ایک مشہور کامیڈین بن سکتے ہیں۔گالیاں زندگی کے کسی نا کسی مقام پر آپ ضرور دیتے ہیں اگر نہیں دیتے تو گاڑی چلانا سیکھ لیجئے اور سڑک پر گاڑی لیکر نکل جائییے دینا شروع کر دیں گے۔ گالی دینا اتنا ہی ضروری ہے جتنا سانس لینا۔ جس طرح سانس اپنے اندر روکنے سے دم گھٹتا اسی طرح دل میں مچل مچل کر آتی گالیاں زبان پر روک لینے سے بھی دم گھٹتا ہے۔روح بے چین ہوتی ہے ۔ گالی ضرور دینی چاہیئے
دوسروں کو خود کو ۔۔۔دینے والے بنیں وجوہات بہت ملیں گی۔گالی میں لڑکا لڑکی کی تشخیص بھی نہیں۔ پہلے یہ احمقانہ ریت تھی کہ لڑکیاں گالیاں نہیں دیتیں تھیں یا لڑکیوں کے سامنے گالیاں دینے سے پرہیز کیا جاتا تھا مگر سماجی روابط کی ویب گاہوں کا شکریہ جنہوں نے گالیوں کے زبان زد عام ہونے میں انکی تشہیر میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔مردوزن کی بے مقصد تشخیص ختم کی۔پڑھے لکھے اور جاہل کی بھی تفریق ختم کی۔ اب سب مردانہ وار گالیاں دیتے ہیں پڑھے لکھے گالیاں دیتے ہیں جاہل جہلا گالیاں دیتے ہیں، فرد واحد گالیاں دیتے ہیں پورے خاندان گالیاں دیتے ہیں چھوٹے گالیاں دیتے ہیں بڑے گالیاں دیتے ہیں گالیاں پڑتی بھی سب کو ہیں۔ نیک کو گالیاں پڑتی ہیں بد کو پڑتی ہیں مجھے پڑتی ہیں آپکو پڑتی ہیں۔ حکومت کو پڑتی ہیں اپوزیشن کو پڑتی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کو ۔۔۔ نہیں اسکو نہیں پڑتیں۔ پڑہی نہیں سکتیں۔گالی ایک سائنس ہے ۔ گالی دینے والا سائنسدان۔ سائنس ایک الگ ہی قسم کی چیز ہے ۔ اسکو سمجھنا بھی ایک الگ سائنس ہے سائنس ہر کسی کی الگ ہوتی ہے سائنس پر مفصل بیان پھر سہی۔۔ آج بس ایک گالی۔۔ ہر اس گالی دینے والے کے نام جس نے اس فن کو بام عروج پر پہنچایا۔۔
مستقل کالم عنوان : ایک اور رائے
کالم عنوان : تیری گلیاں اور گالیاں
مصنفہ : نازیہ زیدی
گالی فنون لطیفہ کی اہم شاخ ہے ۔ یہ انسان کی حس لطیف کی تسکین کیلئے ایجاد کی گئ تھی۔یہ انسان کے غم و غصے کی وہ ترجمان کیفیت ہے جس سے انسان کے اخلاق و کردار کا تعین ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر گالی اس لفظ بات یا صفت کو کہتے ہیں جو دینے والا آپ میں دیکھ کر آپکو غصے میں کہتا اور گالی کھانے والا اپنے آپ میں دیکھ کر یہ سمجھتے ہوئے کہ ہاں بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی بھڑک اٹھتا۔۔ مثال کے طور پر عموما غصے میں لوگ کسی انسان کو کتا کہہ ڈالتے ہیں ، کتا کہلایا جانے والا انسان جوابا بھونک ضرور اٹھتا مگر سچی بات کبھی میں نے کسی انسان کو کسی کو غصے میں انسان کہتے نہیں سنا۔اگر کسی کو کہہ دو تو وہ برا بھی نہیں مانتا ویسے برا ماننے کی صفت بھی انسانی ہی ہے کسی کتے کو انسان کہہ بھی دیں تو جوابا وہ اسی طرح بھونکے گا جیسے کتا کہلائے جانے پر بھونکتا ہے۔ یعنی کتے کو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا اسے انسان کہا یا سمجھا جائے۔ آزمائش شرط ہے
گالی دینا عموما گالی دینے والے کا ہی کام ہوتا گالی دینا ہر کسی کے بس کی بات بھی نہیں ۔گالیاں سب کو یاد بھی آسانی سے نہیں ہوتیں۔گالی وقت اور حالات کو مد نظر رکھ کر دی جاتی ہے۔ گالی دینا ہمت کا کام ہے۔ کیونکہ گالی دے کر آپ دوسرے کے سارے حواس مختل کر دیتے جوابا اسکی جانب سے کسی قسم کے ردعمل کا بھی سامنا ہو سکتا ہے۔ عموما گالی سن کر ردعمل دینا اتنا ہی آسان ہوتا ہے جتنا امریکہ کیلئے کسی ملک پر دہشت گردی کا الزام لگانا اور گالی سن کر خاموش رہنا اتنی ہی مشکل ہوتا جتنا بھارت میں ہندو اکثریتی علاقے میں رہ کر گائے کا گوشت کھانا۔ گالی دینا ایک فن ہوتا ہے اردو والا ۔ گالی دینا انگریزی والا فن بھی ہوتا ۔ گالی دے کر آپ کسی کو گالی دینے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ گالی دے کر زہنی سکون حاصل ہوتا ہے کہ اب اگلا بھی اتنا ہی غصہ محسوس کر رہا ہے جتنا کہ آپ۔ گالی ضروری نہیں کہ آپ گندی ہی دیں۔ گالیاں دیناانسان پر منحصر ہے۔ اچھے الفاظ بھی کچھ انسانوں کے منہ سے گالی کی طرح ہی ادا ہوتے ہیں۔اتنا ہی منفی اثر رکھتے جتنا کسی گالی والے الفاظ۔گالی پر وقت و حالات کا بھی اثر ہوتا ہے۔ کچھ حالات میں گالی دینا ناگزیر ہوتا ہے جیسے اگر آپ پاکستانی کرکٹ ٹیم کی ورلڈ کپ کی کارکردگی پر گھر میں بیٹھ کر تبصرہ کر رہے ہوں گالی پر جگہ کا بھی اثر ہوتا ہے مثال کے طور پر سیلیکٹڈ لفظ ہی دیکھ لیں۔اسکو انگریزی میں گالی نہیں سمجھا جاتا عموما کسی کو سیلیکٹڈ کہو تو وہ خوشی سے پاگل ہو اٹھتا ہے خاص طور پر اگر اسے نوکری ملی ہو مگر اگر یہی لفظ نوکری ملنے پر ہی پارلیمان کے اندر ادا کیا جائے تو گالی تصور ہوتا ہے۔ اسکے استعمال پر پابندی لگ جاتی ہے ۔یعنی کچھ لفظ گالی بزات خود نہیں ہوتے مگر وقت ، حالات و جگہ کے باعث گالی تصور کیئے جاتے ہیں۔اسی طرح نا اہل نا لائق بھی اردو کے معصوم الفاظ سمجھے جاتے تھے کل تک۔ مگر جب سے مریم نواز نے ادا کیئے ہیں گالی کی طرح چبھتے ہیں۔ اتنا تو برا سچ مچ نا اہل کر دیئے جانے والے وزیر اعظم نے اسکے حامیوں نے نہیں مانا جتنا محض کہلائے جانے پر موجودہ وزیر اعظم کے حامی برا مان رہے ہیں۔ گالی سن کر برا ماننا بھی ایک فن ہے ۔ اردو والا۔ ہر کوئی برا بھی نہیں مان سکتا ہر کسی کو برا مان جانے کا حق ہی نہیں ملتا۔ گالیاں عموما دو طرح کی ہوتی ہیں بڑی گالیاں چھوٹی گالیاں ۔بڑی گالیاں وہ ہیں جو یہاں درج ہونے کے باعث اخبار کی پالیسی کے مطابق سنسر ہوگئیں۔ چھوٹی وہ ہیں جو مجھے نہیں آتیں تو یہاں لکھی ہی نہیں جا سکی ہیں ۔گالیاں اچھی بری نہیں ہوتیں۔ گالیاں دینے والے اچھے برے ہو سکتے ہیں۔ گالیاں سن کر شریف ہی چپ رہ سکتا ہے۔ گالیاں سن کر باقی سب ردعمل ضرور دیتے ہیں۔لیکن اگر آپکا تعلق موجودہ حکمران جماعت سے ہے تو گالی نا بھی دی گئ ہو تو بھی سخت ردعمل دے سکتے ہیں۔ قومی چینل پر ہاتھا پائی کی نوبت آسکتی ہےہاتھا پائی کی نوبت اس سے قبل گلی محلوں کا ہی خاصہ تھی مگر اسکی شہرت دیکھ کر لگتا ہے کہ جلد اسے قومی شناختی علامت قرار دیا جائے گا۔ اس سے قبل گالیاں بھی ٹی وی پر کم گلی محلے میں زیادہ سننے کو ملا کرتی تھیں۔ایک احمقانہ تصور تھا کہ گالیاں گلیوں میں دی جا تی ہیں وہ بھی اپنی گلی میں۔جہاں چار لوگ آپکے ساتھ مل کر گالیاں دینے والے ہوں۔تاکہ کوئی آپکا کچھ بگاڑ نا سکے اب گالیاں سماجی روابط کی ویب گاہوں پر بھی دی جا سکتی ہیں۔ وہاں چار لوگ آپکے ساتھ مل کر گالیاں نا بھی دیں تو بھی آپکا کچھ بگاڑا جا نہیں سکتا۔ گالیاں فیس بک پر دینی چاہیئیں۔ وہاں یہ آزادی ہے کہ گالیاں آپ اسکے بانی کو بھی دے سکتے ہیں۔
یہ آزادی ویسے فیس بک کے علاوہ بھی کئی جگہوں پر ہے چلیں چھوڑیں۔ میں نے گزشتہ کالم میں وعدہ کیا تھا فیس بک پر گالیاں دینے کے 101 فائدے بتائوں گی۔
تو میں نہیں بتا رہی۔ بری بات گالی نہیں دیتے۔میں نے کہا کہ 101 فائدے نہیں بتا رہی ہاں فائدے بتا رہی ہوں انکو ضرب دے کر 101 کیئے جا سکتے ہیں۔
۔فیس بک پر گالی دینے کا رواج اتنا ہی پرانا ہے جتنی فیس بک خود ہےپہلی گالی یقینا مارک زکربرگ نےہی دی ہوگی اور آخری کے بارے میں بھی قوی یقین ہے کہ اسے ہی پڑی ہوگی۔خیر بات ہورہی تھی گالی کے فوائد پر۔فیس بک پر گالی دینے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ جوابا آپکو گالی بھی فیس بک پر ہی ملے گی۔جو اطلاع کی صورت ملے گی اطلاع کھول لی تو خون کھول سکتا نا کھولی تو سب خیریت ہے۔ ایک اور فائدہ یہ ہے کہ گالیاں دلائل کی عدم دستیابی کی صورت میں قاتل بحث ثابت ہوتی ہیں فیس بک پر اگر آپ کسی سیاسی بحث میں الجھے ہیں تو جواب نا ہونے کی صورت میں اگر آپ نے بڑی گالی دی تو دوسری جانب سے خاموشی کی صورت میں آپ بحث جیت گئے اگر دوسری جانب سے بڑی گالی آگئ تو آپکا اتنا کہنا ہی کافی ہوگا کہ آپ جیسے گالی دان انسان سے بات کرنامناسب نہیں یوں آپ بحث میں ہارتے ہارتے بھی جیت جائیں گے۔گالی حکومتی اقدامات کے نتیجے میں پیٹرول کی بڑھتی قیمت ، روپے کی گھٹتی قدر اور مہنگائی کے طوفان پر ردعمل دینے میں بھی کام آتی ہے۔لمبے لمبے تبصروں کی بجائے سادہ سی گالی نا صرف دل ٹھنڈا کرتی ہے بلکہ سیاسی مخالفین کا کلیجہ سڑانے کے بھی کام آتی ہے۔فیس بک پر گالی کسی کو مزہبی اختلاف پر ، سیاسی اختلاف پر ، ذاتی اختلاف پر ، سماجی اختلاف پر، اختلاف برائے اختلاف پر کسی بھی انسان ، اسکے خاندان ، سیاست دان، معیشت دان، سائنسدان، پاندان ، اگالدان ، شمع دان وغیرہ کو دی جاسکتی ہے منہ بھر بھر کر دی جاسکتی ہے مگر یاد رہے خلائی مخلوق کو دینا سختی ہے منع ہے ۔ آپکے خلاف قانونی اخلاقی یا بنا کسی عنوان کے پوشیدہ کاروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔ یہ آسمانی مخلوق ہوتی ہے اسکی رسائی دنیا تک آسان ہوتی ہے۔ گالی دینا آپکے کول ہونے کی نشانی ہے ۔ یہ آپکے اسٹیٹس ( موجودہ حالت پر مبنی مراسلے )کو چار چاند لگا دیتی ہے۔گالی اگر انگریزی میں دی جا رہی تو آپکے پڑھے لکھے اچھے خاندان سے ہونے کی علامت سمجھی جاتی ہے وہیں اردو یا پنجابی میں گالیاں دینے سے آپکو اسکے الٹ سمجھا جائے گا ۔ سو فیس بک پر کوشش کیجئے کہ انگریزی میں گالیاں دیں۔ ویسے بھی اردو میں گالی گالی ہی نہیں لگتی۔ مثال کے طور پر الیکٹڈ یا سیلیکٹڈ کوہی لے لیں۔ دونوں کو اردو میں منتخب ہی کہا جاتا ہے۔ مگر منتخب وزیر اعظم کی اصطلاح تو پارلیمنٹ میں حکومتی ارکان بھی استعمال کرتے ہیں۔ لیکن سلیکٹڈ کی ممانعت ہے۔ سن کر برا ہی مان جاتے ہیں۔ گالی بڑے بڑے لوگ دیتے ہیں۔ گالی چھوٹے بھی دے سکتے ہیں۔ گالی چھوٹا بڑا نہیں بناتی ہاں چھوٹی بڑی گالی آپکو چھوٹا بڑا بنا سکتی ہے۔ نہیں سمجھ آئی؟ گالی۔۔۔ اب آجائے گی۔ گالی دینے سے آپکو پیسے بھی مل سکتے ہیں۔ایسی ویڈیوز بنائیں جس میں آپ کسی کو منہ بھر بھر کر گالیاں دے رہے ہوں تو آپ کو جوابا کسی کی جانب سے منہ بھر بھر کر گالیاں ملیں گی اب جسکو آپ نے گالی دی وہ اگر آپ سے زیادہ مشہور ہے تو یقینا اسکے آپکو جوابا ردعمل دینے سے اسکے پیروکار لوگ آپکی ویڈیو دیکھنے آئیں گے کہ بھلا آپ کون ہیں یوں گالیاں دینے والے؟ یوں کچھ گالیاں دے کر کچھ گالیاں کھا کر آپ ایک مشہور کامیڈین بن سکتے ہیں۔گالیاں زندگی کے کسی نا کسی مقام پر آپ ضرور دیتے ہیں اگر نہیں دیتے تو گاڑی چلانا سیکھ لیجئے اور سڑک پر گاڑی لیکر نکل جائییے دینا شروع کر دیں گے۔ گالی دینا اتنا ہی ضروری ہے جتنا سانس لینا۔ جس طرح سانس اپنے اندر روکنے سے دم گھٹتا اسی طرح دل میں مچل مچل کر آتی گالیاں زبان پر روک لینے سے بھی دم گھٹتا ہے۔روح بے چین ہوتی ہے ۔ گالی ضرور دینی چاہیئے
دوسروں کو خود کو ۔۔۔دینے والے بنیں وجوہات بہت ملیں گی۔گالی میں لڑکا لڑکی کی تشخیص بھی نہیں۔ پہلے یہ احمقانہ ریت تھی کہ لڑکیاں گالیاں نہیں دیتیں تھیں یا لڑکیوں کے سامنے گالیاں دینے سے پرہیز کیا جاتا تھا مگر سماجی روابط کی ویب گاہوں کا شکریہ جنہوں نے گالیوں کے زبان زد عام ہونے میں انکی تشہیر میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔مردوزن کی بے مقصد تشخیص ختم کی۔پڑھے لکھے اور جاہل کی بھی تفریق ختم کی۔ اب سب مردانہ وار گالیاں دیتے ہیں پڑھے لکھے گالیاں دیتے ہیں جاہل جہلا گالیاں دیتے ہیں، فرد واحد گالیاں دیتے ہیں پورے خاندان گالیاں دیتے ہیں چھوٹے گالیاں دیتے ہیں بڑے گالیاں دیتے ہیں گالیاں پڑتی بھی سب کو ہیں۔ نیک کو گالیاں پڑتی ہیں بد کو پڑتی ہیں مجھے پڑتی ہیں آپکو پڑتی ہیں۔ حکومت کو پڑتی ہیں اپوزیشن کو پڑتی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کو ۔۔۔ نہیں اسکو نہیں پڑتیں۔ پڑہی نہیں سکتیں۔گالی ایک سائنس ہے ۔ گالی دینے والا سائنسدان۔ سائنس ایک الگ ہی قسم کی چیز ہے ۔ اسکو سمجھنا بھی ایک الگ سائنس ہے سائنس ہر کسی کی الگ ہوتی ہے سائنس پر مفصل بیان پھر سہی۔۔ آج بس ایک گالی۔۔ ہر اس گالی دینے والے کے نام جس نے اس فن کو بام عروج پر پہنچایا۔۔
#rawalpindi #pti #travel #beauty #likeforlikes #instadaily #ig #bollywood #cricket #pakistaniwedding #followforfollowback #usa #style #pakarmy #memes #dawndotcom #pakistanicelebrities #trending #beautiful #faisalabad #islamic #urduadab #onlineshopping #sindh #quetta #bhfyp #picoftheday #insta #psl #art #pakistan #lahore #karachi #islamabad #love #india #pakistani #instagram #photography #fashion #follow #urdupoetry #urdu #instagood #peshawar #pakistanzindabad #imrankhan #like #pakistanifashion #kashmir #punjab #nature #dubai #poetry #lollywood #pakistanistreetstyle #photooftheday #islam #multan #bhfyp
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں