میری بددعا سےMeri baddua se ...
کالم کا نام : میری بد دعا سے مستقل نام : ایک اور رائے مصنف : نازیہ زیدی مجھے اچانک یہ احساس ہوا کہ میں کالی زبان ہوں۔میری کچھ باتیں اتنی فوری اور اچانک پوری ہوئی ہیں کہ دل کرر ہا ہے کہ پیسے لیکر بد دعائیں دینے کا کام شروع کر دوں۔ ہوا کچھ یوں کہ آج کل نہایت کڑوی دوائی مجھے ناسازی طبع کی وجہ سے پینی پڑ رہی ہے تو یونہی کل خوراک لیتے ہوئے سوچا کہ کاش یہ آخری خوراک ہو گو بوتل ابھی آدھی تھی کہ دھڑام سے آج گر کر ٹوٹ گئ۔ گو دوا کا ٹوٹنا ہرگز بھی اچھی بات نہیں مگر یقین جانیئے ہر خالص پاکستانی کی طرح اپنے نقصان پر بغلیں بجائیں شکر کیا کہ میرا نقصان ہو گیا اب صحتیاب ہوں نہ ہوں لیکن وہ کڑوا سیال نہیں پینا پڑے گا۔ گو اس کڑوے سیال کو تجویز کرنے پر معالج کو بھی میں کچھ اچھے الفاظ سے نہیں نوازا تھا مگر شکر ہے بددعا اسے نہیں دے دی۔ گو آج تک سنا نہیں کہ کسی کو بددعا دینے پر اقدام قتل کے جرم میں اندر کیا گیا ہو۔ بھلے قصور ثابت بھی ہو جائے مگر دن میں لاکھوں لوگ ہزاروں بار جس طرح حکام بالا کو کوستے ہیں یقینا جیلیں بھر جاتیں۔ ہاں تو دوسری بد دعادی میں نے جب سنا کہ حکومت 380 ارب روپے معاف کر رہی ہ...